May 3, 2024

قرآن کریم > محمّـد >sorah 47 ayat 36

إِنَّمَا الحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ

یہ دُنیوی زندگی تو بس کھیل تماشا ہے، اور اگر تم ایمان لاؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو اﷲ تمہارے اَجر تمہیں دے گا، اور تمہارے مال تم سے نہیں مانگے گا

آیت ۳۶ اِنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ: ’’یہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل ہے اور کچھ جی کا بہلانا ہے۔

          آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کی حیثیت لہو و لعب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسی حقیقت کو سورۂ آلِ عمران میں اس طرح واضح کیا گیا ہے: وَما الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ: ’’اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘

          وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا یُؤْتِکُمْ اُجُوْرَکُمْ: ’’اور اگر تم لوگ ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کیے رہو تو وہ تمہیں تمہارے اجر عطا کرے گا۔‘‘

          وَلَا یَسْئَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْ: ’’ اور تم سے تمہارے اموال نہیں مانگے گا‘‘۔

          قرآن میں ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کے بارے میں بہت تلقین اور تاکید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے بار بار ان کے اموال کا براہِ راست مطالبہ بھی کیا ہے: مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا …: (البقرۃ:۲۴۵) ’’کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے…!‘‘ اور انفاق سے گریز کی روش کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی ہے: وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ: (البقرۃ:۱۹۵) ’’خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور مت ڈالو اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں۔

          بہر حال قرآن میں اس موضوع پر جتنا بھی اصرار و تکرار ہے وہ ترغیب و تشویق کے انداز میں ہے‘ اس میں جبر اور زبردستی کا پہلو بالکل نہیں ہے۔ حضور  کی عظیم الشان انقلابی جدوجہد کا یوں تو ہر انداز ہی مثالی اور قابل تعریف ہے‘ لیکن زیر بحث موضوع کے حوالے سے آپ کی اس تحریک کا جو پہلو خصوصی طور پر لائق توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کہیں ’’ایمرجنسی‘‘ کی صورتِ حال نظر نہیں آتی ہے۔ کسی بھی مرحلے میں کسی کا مال ’’بحق سرکار‘‘ ضبط نہیں کیا گیا‘ اور نہ ہی کسی معرکے کے لیے لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہوئی۔ ’’نفیر عام‘‘ بھی پوری تحریک کے دوران صرف ایک موقع (غزوہ تبوک) پر ہوئی‘ ورنہ لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے ہمیشہ ترغیب و تشویق کا ہی انداز اپنایا گیا: یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ: (الانفال: ۶۵) ’’اے نبی! ترغیب دلائیے اہل ایمان کو قتال کی‘‘۔ بہر حال ترغیب کے لیے اہل ایمان کو اجر و ثواب کا وعدہ دیا گیا اور انہیں ’’شہادت ہے مقصود و مطلوب مؤمن‘‘ کا سبق پڑھایا گیا‘ لیکن کبھی زور زبردستی نہیں کی گئی۔ اس سیاق و سباق میں آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے زبردستی تمہارے اموال نہیں مانگتا یا تم سے سارے کا سارا مال دے ڈالنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔

UP
X
<>