April 27, 2024

قرآن کریم > الحُـجُـرات >sorah 49 ayat 15

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ 

اِیمان لانے والے تو وہ ہیں جنہوں نے اﷲ اور اُس کے رسول کو دل سے مانا ہے، پھر کسی شک میں نہیں پڑے، اور جنہوں نے اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اﷲ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو سچے ہیں

آیت ۱۵  اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا:  ’’مؤمن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ‘ پھر شک میں ہر گز نہیں پڑے‘‘

          یعنی ایسے لوگوں کا ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہو کر یقین کی ایسی صورت اختیار کر گیا ہے کہ ان کے دلوں کے اندر شک کی کوئی گنجائش رہی ہی نہیں۔ جیسے قبل ازیں آیت ۷ میں صحابہ کے بارے میں فرمایا گیا:  وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ  ’’لیکن (اے نبی کے ساتھیو!) اللہ نے تمہارے نزدیک ایمان کو بہت محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں کے اندر رچا بسا دیا ہے۔‘‘

          جب تک ایمان دل میں راسخ نہیں ہوا اور ابھی صرف زبان پر ہے (آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ…) تو یہ اسلام ہے۔ اسی لیے اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر بتائی گئی ہے: ( بُنِیَ الاْسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ … الحدیث) ان میں یقین قلبی شامل نہیں ہے‘ بلکہ نظریاتی طور پر صرف توحید و رسالت کی گواہی دے کر اور اس کے بعد نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کا التزام کر کے اسلام کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن ایمان اس سے اوپر کی منزل ہے۔ گویا مذکورہ پانچ شرائط (پہلی شرط کا تعلق نظریے سے جبکہ باقی چار کا تعلق عمل سے ہے) پوری کر کے جو شخص ’’مسلمان‘‘ ہو گیا اسے ’’مؤمن‘‘ بننے کے لیے کچھ اضافی شرائط بھی پوری کرنا ہوں گی اور آیت زیر مطالعہ کی رو سے یہ اضافی دو شرائط ہیں‘ یعنی ’’شہادت‘‘ کے ساتھ یقین قلبی  (لَمْ یَرْتَابُوْا) کی کیفیت کا اضافہ ہو گا اور اعمال کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا:

           وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ:  ’’اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔‘‘

           اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ:  ’’یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔‘‘

           گویا کسی شخص کو ’’حقیقی مؤمن‘‘ بننے کے لیے مذکورہ ساتوں شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ پہلی پانچ شرائط ’’اسلام‘‘ میں داخل ہونے کے لیے جبکہ آخری دو شرائط ’’ایمان‘‘ کی منزل حاصل کرنے کے لیے۔ اسلام اور ایمان کے اس فرق کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک مؤمن لامحالہ ’’مسلم‘‘ تو ہوگا ہی لیکن ہر ’’مسلم‘‘ مؤمن نہیں ہو سکتا۔

          اسلام اور ایمان کی اس بحث میں لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ زبان سے: ’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ…‘‘ کا دعویٰ کرنا تو آسان ہے مگر دل میں حقیقی ایمان پیدا کرنا اور پھر اس ایمان کے تقاضے پورے کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ’’ایمانی کیفیت‘‘ کا جائزہ لیتا رہے۔ خصوصی طور پر اس حوالے سے یہ حقیقت تو ہمیں کسی لمحے بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم باطل نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس حالت میں اگر ہم اس نظام کو ذہنی طور پر قبول کر کے اس کی چاکری کرنا شروع کر دیں گے‘یعنی اس نظام کے تحت اپنی معیشت کی ترقی اور اپنے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی فکر میں لگ جائیں گے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے ایمان کی خبر لینے کی ضرورت ہو گی۔

          دراصل کسی ملک یا معاشرے میں غلبہ باطل کی صورت میں ایک بندۂ مومن کے لیے لازم ہے کہ وہ اس نظام کے تحت حالت احتجاج میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ اور ((اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ))  کے مصداق باطل نظام کے تحت وہ ایسے رہے جیسے ایک قیدی جیل کے اندر رہتا ہے۔ یعنی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے میں وہ اپنی کم سے کم توانائی صرف کرے اور ان ضروریات کو بھی کم سے کم معیار (subsistance level) پر رکھے ‘جبکہ اپنا باقی وقت اور اپنی بہترین صلاحیتیں نظام باطل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد میں کھپا دے۔  ع ’’گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!‘‘ اگر باطل نظام کے تحت رہتے ہوئے ایک مرد مسلمان کی زندگی کے شب و روز کا نقشہ ایسا نہیں تو بے شک قانونی طور پر وہ اپنے ملک کا ایک مسلمان شہری ہے‘ اپنے مسلمان باپ کی وراثت کا حقدار ہے‘ مسلمان عورت سے شادی کر سکتا ہے اور اس طرح کے دوسرے تمام قانونی حقوق سے بھی مستفید ہو سکتا ہے‘ لیکن ایسا ’’مسلمان‘‘ اللہ کے ہاں ’’مؤمن‘‘ شمار نہیں ہو سکتا۔

          اس آیت کے بارے میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اس کا آغاز ’’اِنّما‘‘ سے ہو رہا ہے اور آخر پر ’’اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی آیت کا آغاز بھی اسلوبِ حصر سے ہو رہا ہے اور اختتام پر بھی اسلوبِ حصر آیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یوں ہو گا کہ مؤمن تو ہیں ہی صرف وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان نے ’’یقین‘‘ کی شکل اختیار کر لی اور پھر انہوں نے اپنے جان و مال کو اللہ کی راہ میں کھپا دیا۔ اور صرف یہی لوگ ہیں جو اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین‘ ثم آمین!

          آیت کے آخر میں ان مؤمنین کو جو سرٹیفکیٹ (اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ) عطا ہوا ہے اس کی اہمیت کو سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۹ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سورۃ التوبہ کی مذکورہ آیت میں اہل ایمان کو صادقین کے ساتھ شامل ہونے (کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ) کا حکم دیا گیا ہے‘ جبکہ آیت زیر مطالعہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’صادقین‘‘ کون ہیں۔ اس نکتے کو اس طرح سمجھیں کہ آیت زیر مطالعہ میں مؤمنین صادقین کی دو نشانیاں (ایمان حقیقی اور جہاد فی سبیل اللہ) ہماری راہنمائی کے لیے بتائی گئی ہیں کہ مسلمانو! اٹھو‘ اس ’’چراغ‘‘ کی روشنی میں ’’مؤمنین ِصادقین‘‘ کو تلاش کرو اور پھر ان کے مشن کی جدوجہد میں ان کے دست و بازو بن جاؤ! حضور  کا فرمان ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ امیر معاویہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: ((لاَ یَزَالُ مِنْ اُمَّتِیْ اُمَّۃٌ قَائِمَۃٌ بِاَمْرِ اللّٰہِ، لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَھُمْ، حَتّٰی یَاْتِیَ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ)) ’’میری اُمت میں سے ایک گروہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے والا ہمیشہ موجود رہے گا۔ ان کا ساتھ چھوڑ دینے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے‘ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا‘ اور وہ اسی پر قائم ہوں گے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’مؤمنین صادقین‘‘ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں تلاش کریں اور  کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ  کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ان کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں تا کہ  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ (الفتح :۲۹) کی طرز پر ایک مضبوط ’’حزب اللہ‘‘ تشکیل پا سکے۔ ظاہر ہے افراد کے اتحاد کے بغیر نہ تو کوئی جمعیت وجود میں آ سکتی ہے‘ نہ اقامت دین کی جدوجہد آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ ہی ’’اظہارِ دین حق‘‘ کی شانِ تکمیلی کا ظہور ممکن ہو سکتا ہے۔ 

UP
X
<>