May 3, 2024

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 20

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّن الْعَالَمِينَ 

اور اُس وقت کا دھیان کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’ اے میری قوم ! اﷲ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے کہ اس نے تم میں نبی پیدا کئے، تمہیں حکمران بنایا، اور تمہیں وہ کچھ عطا کیا جو تم سے پہلے دُنیا جہان کے کسی فرد کو عطا نہیں کیا تھا

            اب حضرت موسیٰ  کا وہ واقعہ آ رہا ہے جب آپ مصر سے اپنی قوم کو لے کر نکلے،  صحرائے سینا میں  رہے،  آپ کو کوہِ طور پر بلایا گیا اور تورات دی گئی۔  اس کے بعد انھیں  حکم ہوا کہ فلسطین میں  داخل ہو جاؤ اور وہاں  پر آباد مشرک اور کافر قوم (جو فلسطی کہلاتے تھے)  کے ساتھ جنگ کرو اور انہیں  وہاں  سے نکالو،  کیونکہ یہ ارضِ مقدس تمہارے لیے اللہ کی طرف سے موعود ہے۔  اس لیے کہ ان کے جد ِامجد ّحضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب  کا تعلق اس ّخطہ سے تھا۔ پھر حضرت یعقوب کے زمانے میں  حضرت یوسف کی وساطت سے بنی اسرائیل مصر میں  منتقل ہوئے تو انہیں  حکم ہوا کہ اب جاؤ،  اپنے اصل گھر (ارضِ فلسطین)  کو دوبارہ حاصل کرو۔  لیکن جب جنگ کا موقع آیا تو پوری قوم نے کورا جواب دے دیا کہ ہم جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں  ہیں۔  اس پر حضرت موسیٰ  کے مزاج میں  جو تلخی پیدا ہوئی اور طبیعت کے اندر بے زاری کی جو کیفیت پیدا ہوئی، اس کی شدت یہاں  نظر آتی ہے۔  عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ رسول اپنی اُمت کے حق میں  سراپا شفقت ہوتا ہے،  لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی کا معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کی مانند ہے۔  جیسے اللہ رؤف بھی ہے،  وَدُود بھی، لیکن ساتھ ہی وہ عزیزٌ ذُوانتقام بھی ہے (اللہ کی یہ دونوں  شانیں  ایک ساتھ ہیں)  اسی طرح رسول کا معاملہ ہے کہ رسول شفیق اور رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہوتا ہے۔ نبی کے دل میں  دین کی غیرت اپنے پیروکاروں  سے کہیں  بڑھ کر ہوتی ہے۔ لہٰذا قوم کے منفی ردّ عمل پر نبی کی بے زاری  لازمی ہے۔

            یہاں  پر ایک بہت اہم نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو پے درپے معجزات کے ظہور نے تساہل پسند بنا دیا تھا۔  پیاس لگی تو چٹان پر موسیٰ کی ایک ہی ضرب سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، بھوک محسوس ہوئی تومن ّو سلویٰ نازل ہو گیا، دھوپ نے ستایا تو اَبر کا سائبان ساتھ ساتھ چل پڑا،  سمندر راستے میں  آیا تو عصا کی ضرب سے راستہ بن گیا۔  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس لاڈ پیار کی وجہ سے وہ بگڑ گئے،  آرام طلب ہو گئے،  مشکل کی ہر گھڑی میں  انھیں معجزے کے ظہور کی عادت سی پڑ گئی اور جنگ کے موقع پر دشمن کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا،  باوجودیکہ اُن کے کم ازکم ایک لاکھ افراد تو ایسے تھے جو جنگ کی صلاحیت رکھتے تھے۔  یہی حکمت ہے کہ محمد رسول اللہ کی پوری زندگی میں اس قسم کا کوئی معجزہ نظر نہیں  آتا،  بلکہ یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ مسلمانو! تمہیں  جو کچھ کرنا ہے اپنی جان دے کر،  ایثار و قربانی سے،  محنت و مشقت سے،  بھوک جھیل کر،  فاقے برداشت کر کے کرنا ہے۔  چنانچہ بنی اسرائیل کے برعکس رسول اللہ کے ساتھیوں  میں  ایثار و قربانی،  جرأت و بہادری اور بلندہمتی نظر آتی ہے،  جس کی واضح مثال غزوہ بدرکے موقع پر حضرت مقداد کا یہ قول ہے:

یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ لِمُوْسٰی  فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّـکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ، وَلٰــکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ،  فَـکَاَنَّـہ سُرِّیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ

،،یا رسول اللہ! ہم آپ سے بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں  کہیں  گے کہ تم اور تمہارا رب جا کر قتال کرو ہم تو یہاں  بیٹھے ہیں ۔  بلکہ (ہم کہیں  گے)  آپ قدم بڑھایئے،  ہم آپ کے ساتھ ہیں ! اس پر گویا رسول اللہ کی پریشانی کا ازالہ ہو گیا۔ ،،

آیت 20:    وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہ:   ،،اور یاد کرو جب کہا موسٰی نے اپنی قوم سے،،

             یٰــقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ :  ،،اے میری قوم کے لوگو! اللہ کے اُس انعام کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے،،

               اِذْ جَعَلَ فِـیْـکُمْ اَنْبِیَــآء:   ،،جب اُس نے تمہارے اندر نبی اٹھائے،،

            یعنی خود میں  نبی ہوں ،  میرے بھائی ہارون نبی ہیں۔  حضرت یوسف،  حضرت یعقوب،  حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم سب نبی تھے۔

             وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا:   ،،اور تمہیں  بادشاہ بنایا،،

            اگرچہ اُس وقت تک اُن کی بادشاہت تو قائم نہیں  ہوئی تھی مگر ہو سکتا ہے کہ یہ پیشین گوئی ہو کہ آئندہ تمہیں  اللہ تعالیٰ زمین کی سلطنت اور خلافت عطا کرنے والا ہے۔  چنانچہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے زمانے میں  بنی اسرائیل کی عظیم الشان سلطنت قائم ہوئی۔  ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہاں حضرت یوسف  کے اقتدار کی طرف اشارہ ہے، وہ اگرچہ مصر کے بادشاہ تو نہیں  تھے لیکن بادشاہوں  کے بھی مخدوم و ممدوح تھے اور بنی اسرائیل کو مصر میں  پیرزادوں  کا سا عزت و احترام حاصل ہو گیا تھا۔    ّ

             وَّاٰتٰٹکُمْ مَّا لَمْ یُــؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ:   ،،اور تمہیں  وہ کچھ دیا جو تمام جہان والوں میں  سے کسی کو نہیں  دیا۔ ،،

UP
X
<>