May 4, 2024

قرآن کریم > الـنجـم >sorah 53 ayat 17

 مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى

(پیغمبر کی) آنکھ نہ تو چکرائی، اور نہ حد سے آگے بڑھی

آيت 17:  مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى:  «(اس وقت محمد كى) آنكھ نه تو كج هوئى اور نه هى حد سے بڑھى».

يهاں پر دونوں انتهائى كيفيات كى نفى كر دى گئى. انسان كى فطرى اور طبعى كمزورى هے كه اگر اسے اچانك بهت تيز روشنى كا سامنا كرنا پڑے تو وه نظروں كو اس سے پھيرنے اور هٹانے كى كوشش كرتا هے يا پلك جھپك ليتا هے. اس حوالے سے يهاں بتايا گيا كه حضور نے انوارِ تجلياتِ الهيه كا كھلى آنكھوں سے براه راست مشاهده كيا اور نگاه جما كر ديكھا، ليكن اس مشاهدے ميں حد ادب سے تجاوز بھى نهيں كيا.

واقعه يه هے كه اس آيت كو اكثر وبيشتر لوگ سمجھ هى نهيں سكے. جبكه ميں نے اس كے مفهوم كو علامه اقبال كے اس شعر كى مدد سے سمجھا هے:

عينِ وصال ميں مجھے حوصله نظر نه تھا         گرچه بهانه جُو رهى ميرى نگاهِ بے ادب!

يه بالِ جبريل كى نظم «ذوق وشوق» كا شعر هے. يه نظم بلاشبه علامه اقبال كى شاعرانه استعداد كى معراج هے، اگرچه اُمتِ مسلمه كے ليے پيغام كے اعتبار سے ان كے آخرى عمر (1936ء) كى نظم «ابليس كى مجلسِ شورى» نقطه عروج كا درجه ركھتى هے. اس شعر ميں علامه كهتے هيں كه ميں وصال كے دوران ادب كے تمام تقاضوں كو بالائے طاق ركھ كر محبوب كے حسن كا مشاهده كرنا چاهتا تھا مگر نظريں جما كر براهِ راست ديكھنے كا مجھ ميں حوصله نه تھا. يهاں اقبال اپنى نظر كى «بے ادبى» كو خود تسليم كر رهے هيں اور حد ادب سے تجاوز كى شديد خواهش كا بھى اعتراف كر رهے هيں، ليكن ساتھ هى وه اپنى معذورى كا بھى اعتراف كر رهے هيں كه ايسا كرنے كا حوصله ان ميں نهيں تھا. گويا صرف وه حوصلے كے فقدان كى وجه سے «بے ادبى» كے ارتكاب سے بچے رهے. اب اس شعر ميں پيش كيے گئے تصور كى روشنى ميں غور كريں تو آيت كا مفهوم واضح هو جاتا هے. حضور كے تحمل اور حوصلے كا يه عالَم تھا كه آپ نے ان انوار وتجليات كو براهِ راست ديكھا اور جم كر مشاهده كيا، ليكن دوسرى طرف آپ كے ضبط اور ادب كا كمال يه تھا كه «حوصله» هوتے هوئے بھى آپ كى طرف سے ايك خاص حد سے سرِمو تجاوز نه هوا.

UP
X
<>