April 26, 2024

قرآن کریم > الـنجـم >sorah 53 ayat 62

 فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا

اب (بھی) جھک جاؤ اﷲ کے سامنے، اور اُس کی بندگی کر لو

آيت 62:  فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا:  «پس سجده كرو الله كے ليے اور اسى كى بندگى كرو!»

روايات ميں آتا هے كه حضور صلى الله عليه وسلم نے پهلى مرتبه يه سورت حرمِ كعبه ميں قريش كے ايك بڑے مجمع كے سامنے تلاوت فرمائى تھى. اس مجمع ميں اهلِ ايمان بھى تھے اور مشركين كے خواص وعوام بھى. اس كلام كى شدتِ تاثير كا يه عالم تھا كه جب آپ نے اسے سنانا شروع كيا تو مخالفين كو اس پر شور مچانے كى همت نه هوئى اور حضور نے جب يه آخرى آيت تلاوت فرمانے كے بعد سجده كيا تو آپ صلى الله عليه وسلم كے ساتھ مسلم وكافر سبھى سجده ميں گر گئے. بعد ميں مشركين كو سخت پريشانى لاحق هوئى كه يه هم نے كيا كيا. آخركار انهوں نے اپنے سجدے كے جواز ميں يه بات بتائى كه هم نے تو لات، عزى اور منات كے ذكر (آيت: 19، 20) كے بعد محمد (صلى الله عليه وسلم) كى زبان سے يه كلمات بھى سنے تھے: تلك الغُرَانِقَةُ الْعُلَى وَاِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْجَى. (يه بلند مرتبه ديوياں هيں، اور ان كى شفاعت كى اميد كى جاتى هے). ان كا كهنا تھا كه يه كلمات سننے كے بعد هم نے سمجھا كه محمد (صلى الله عليه وسلم) نے همارى ديويوں كو بھى تسليم كر ليا هے، لهذا اب ان كے ساتھ همارا جھگڑا ختم هو گيا هے. حالانكه اس پورى سورت كے سياق وسباق ميں ان فقروں كى كوئى جگه ممكن هى نهيں جن كے بارے ميں ان كا دعوى تھا كه ان كے كانوں نے سنے هيں. حقيقت تو يه هے كه مشركين كے سجدے ميں گر جانے كا واقعه كلامِ الهى كى غير معمولى تاثير اور خصوصى طور پر اس سورت كے پُر جلال اندازِ خطابت كے باعث پيش آيا تھا. همارا معامله تو يه هے كه هم كلام الله كے ادبى جمال، اس كى فصاحت وبلاغت كى لطافتوں اور خطابت كى چاشنى كا ادراك نهيں كر سكتے، مگر اس كے اولين مخاطبين تو اهلِ زبان تھے، پھر نزول قرآن كے زمانے كے عرب معاشرے ميں سخن گوئى اور سخن فهمى كا مجموعى ذوق بھى عروج پر تھا، وه لوگ قرآن مجيد كے ادبى ولسانى محاسن كو خوب سمجھتے تھے، بلكه حقيقت تو يه هے كه ان كے بڑے بڑے شعرا، ادبا اور خطبا قرآن مجيد كے اعجازِ بيان كے سامنے سرنگوں هو چكے تھے. ظاهر هے اچھے كلام كى تاثير سے تو كسى كو بھى انكار نهيں. خود حضور صلى الله عليه وسلم كا فرمان هے:  ((اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِكْمَةً)). «يقينًا بهت سے اشعار حكمت پر مبنى هوتے هيں». نيز فرمايا: ((اِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا)).  «يقينًا بهت سے خطبات جادو كى سى تاثير ركھتے هيں». زورِ خطابت اور تاثير كے اعتبار سے اگرچه قرآن مجيد كى هر آيت هى لاجواب هے مگر سورة النجم اس حوالے سے خصوصى اهميت كى حامل هے.

مندرجه بالا حقائق كے تناظر ميں مذكوره واقعه كى توجيه يه هے كه جب حضور صلى الله عليه وسلم نے اس سورت كى تلاوت شروع كى تو تمام حاضرينِ مجمع دم بخود هو كر سننے ميں محو هو گئے، حضور صلى الله عليه وسلم كى زبان سے ادا هونے والا ايك ايك لفظ اور ايك ايك فقره ان كى روحوں كى گهرائيوں تك اترتا گيا. خصوصا مشركينِ مكه كى كيفيت تو ايسى تھى كه تلاوت كے اختتام تك وه گويا مبهوت هو چكے تھے. چنانچه اختتامِ تلاوت پر جب حضور صلى الله عليه وسلم اور مجمع ميں موجود اهل ايمان سجده ميں گئے تو (فَاسْجُدُوا لِلَّهِ) كے حكم كى تاثير، هيبت اور جلالت كى تاب نه لاتے هوئے سب كے سب مشركين بھى بے اختيار سجدے ميں گر گئے، گويا وه اسى طرح سجدے ميں گرا ديے گئے (والله اعلم!) جيسے حضرت موسى عليه السلام كے مقابلے ميں آئے هوئے جادوگر سجدوں ميں گرا ديے گئے تھے:  (وَأُلْقِىَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ) {الاعراف: 120}. واضح رهے كه سورة الاعراف كى اس آيت ميں فعل مجهول (أُلْقِىَ) استعمال هوا هے، يعنى ايسا لگا جيسے انهيں كسى نے پكڑ كر سجدے ميں گرا ديا هو.

UP
X
<>