May 6, 2024

قرآن کریم > الـتغابن >sorah 64 ayat 16

فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

لہٰذا جہاں تک تم سے ہو سکے اﷲ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور مانو، اور (اﷲ کے حکم کے مطابق) خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے۔ اور جو لوگ اپنے دل کی لالچ سے محفوظ ہوجائیں ، وہی فلاح پانے والے ہیں

اس سوره مباركه كى آخرى تين آيات ايمان كے عملى تقاضوں كو بالفعل ادا كرنے كى دعوت پر مشتمل هيں.

آيت 16:  فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا:  «پس الله كا تقوى اختيار كرو اپنى حدِ امكان تك، اور سنو اور اطاعت كرو»

گويا ايمان بالله كا عملى تقاضا يه هے كه انسان ميں الله كا تقوى پيدا هو جائے، اور تقوى بھى تھوڑا بهت نهيں بلكه امكانى حد تك، جتنا اس كے حدِ استطاعت ميں هے.... البته كسى انسان ميں كتنى استطاعت اور استعداد اور وسعت وطاقت هے جس كے مطابق وه مكلّف اور جواب ده هے، اس كا صحيح شعور وادراك بسا اوقات اسے خود نهيں هوتا اور وه اپنے آپ كو دين كے عملى تقاضوں كے ضمن ميں رعايتيں ديتا چلا جاتا هے، حالانكه انسان كا خالق خوب جانتا هے كه اس نے اس ميں كتنى استطاعت، استعداد اور وسعت ركھى هے. چنانچه وه اسى كے مطابق هر انسان كا محاسبه اور مؤاخذه فرمائے گا.

ايمان كے بيان ميں دوسرے نمبر پر ذكر تھا ايمان بالرسالت كا، لهذا يهاں ايمان كا دوسرا عملى تقاضا «سمع وطاعت» كے حوالے سے بيان هوا، جس كا نقطه آغاز عملى اعتبار سے رسول الله صلى الله عليه وسلم كى ذات وشخصيت هے. سمع وطاعت كا تعلق اصلًا ايمان بالله سے هے، ليكن عملًا اس كا تعلق ايمان بالرسالت سے هے، اس ليے كه اگرچه مطاعِ حقيقى تو الله هى هے، مگر الله كا نمائنده اور اس كے اذن سے بالفعل مطاع بن كر رسول آتا هے تو اس كى اطاعت گويا الله كى اطاعت هى هے. جيسے سورة النساء ميں فرمايا گيا: ﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ {آيت: 80} «جس نے رسول كى اطاعت كى درحقيقت اس نے الله كى اطاعت كى».

دوسرى بات يه هے كه يهاں پر ﴿وَاسْمَعُوْا وَأَطِيعُوْا﴾ كا حكم خصوصى اهميت كا حامل هے. اس حوالے سے قابلِ غور نكته يه هے كه قبل ازيں آيت: 12 ميں جب ﴿وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ كا واضح حكم آ چكا هے تو اب يهاں كون سى اطاعت كے ليے بلايا جا رها هے؟ اس مسئلے كو يوں سمجھيے كه حضور صلى الله عليه وسلم اپنى حياتِ مباركه ميں مختلف مواقع پر مختلف امور كے ليے امير مقرر فرمايا كرتے تھے. حضور صلى الله عليه وسلم كے مقرر كرده امير كى اطاعت بھى متعلقه اهلِ ايمان پر اسى طرح لازم تھى جيسے كه خود حضور صلى الله عليه وسلم كى اطاعت. اس بارے ميں حضور صلى الله عليه وسلم كا يه فرمان بهت واضح هے:

«مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصى اللهَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَد أَطَاعِني، وَمَنْ عَصى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي».

«جس نے ميرى اطاعت كى اس نے اصل ميں الله تعالى كى اطاعت كى، اور جس نے ميرى نافرمانى كى اس نے الله تعالى كى نافرمانى كى، اور جس نے ميرے (مقرر كيے هوئے) امير كى اطاعت كى اس نے گويا ميرى اطاعت كى، اور جس نے ميرے (مقرر كيے هوئے) امير كى نافرمانى كى اُس نے گويا ميرى نافرمانى كى».

عزوه احد ميں تيراندازوں كى جس نافرمانى پر سوره آل عمران كى آيت: 152 ميں بھى وعيد آئى اور جس كى وجه سے مسلمانوں كو اجتماعى سزا بھى دى گئى وه دراصل حضور صلى الله عليه وسلم كى براه راست نافرمانى نهيں تھى بلكه آپ صلى الله عليه وسلم كے مقرر كرده كمانڈر كے حكم كى نافرمانى تھى. اسى حوالے سے يهاں يه نكته بھى ذهن نشين كر ليجيے كه امير كى اطاعت صرف حضور صلى الله عليه وسلم كى زندگى ميں هى لازم نهيں تھى بلكه قيامت تك كے ليے لازم هے اور آيت زير مطالعه ميں دراصل اسى اطاعت كا ذكر هے. مطلب يه كه دعوت واقامتِ دين كى جدوجهد كے مشن كو تو قيامت تك زنده رهنا هے. هر زمانے ميں الله كى مشيت اور توفيق سے الله كے بندے اس فريضه كى ادائيگى كے ليے اٹھتے رهيں گے اور اهلِ ايمان كو دعوت ديتے رهيں گے. چنانچه هر دور كے اهلِ ايمان پر لازم هے كه جب بھى الله كا كوئى بنده رسول الله صلى الله عليه وسلم كے مشن كا علمبردار بن كر اٹھے اور مَنْ اَنْصَارِىْ اِلَى اللهِ كى صدا بلند كرے تو وه اس كى بات سنيں. پھر اگر ان كا دل گواهى دے كه اس كى دعوت خلوص واخلاص پر مبنى هے تو اس كى دعوت پر لبيك كهتے هوئے اس كے اعوان وانصار بينں اور اس كى اطاعت كريں. جيسے ماضى قريب ميں سيد احمد بريلوى، حسن البناء شهيد، مولانا الياس اور مولانا مودودى اپنے اپنے زمانے ميں پورے خلوص كے ساتھ دعوت واقامتِ دين كے علمبردار بن كر كھڑے هوئے تھے اور بهت سے اهلِ ايمان نے الله كى توفيق سے ان كى آواز پر لبيك بھى كها.

يه آيت آج هم سے بھى تقاضا كرتى هے كه هم ايسے «داعى الى الله» كى تلاش ميں رهيں. پھر اگر همارا دل گواهى دے كه الله كا فلاں بنده واقعى خلوص نيت سے رسول الله صلى الله عليه وسلم كے مشن كو لے كر كھڑا هوا هے تو همارا فرض هے كه هم اس كى پكار پر لبيك كهيں، تاكه اقامت دين كى جدوجهد كے ليے سمع وطاعت كى بنياد پر ايك مربوط ومضبوط ومنظم جماعت وجود ميں آ سكے. ظاهر هے اگر مسلمان خود كو ايك امير كے تحت ايسى جماعت كى شكل ميں منظم نهيں كريں گے تو ان كى حيثيت ايك هجوم كى سى رهے گى. ذرا تصور كريں! هر سال حج كے ليے لاكھوں مسلمانوں كا جو هجوم اكٹھا هوتا هے، اگر يه لوگ كسى ايك امير كے تحت ايك جماعت كى شكل ميں منظم هوتے تو ايك عظيم الشان انقلاب برپا كر ديتے. اس موضوع پر علامه اقبال كا يه شعر بهت بصيرت افروز هے:

عيدِ آزاداں شكوهِ ملك وديں    عيدِ محكوماں هجومِ مؤمنين!

ايمانيات كے ضمن ميں آخر ميں ايمان بالآخرت كا ذكر تھا، جس كا اهم ترين عملى مظهر انفاق فى سبيل الله هے:

وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ:  «اور خرچ كرو (الله كى راه ميں) يهى تمهارے ليے بهتر هے».

وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ:  «اور جو كوئى اپنے جى كے لالچ سے بچا ليا گيا تو ايسے هى لوگ هوں گے فلاح پانے والے».

يعنى جو كچھ بھى الله تعالى نے تمهيں دے ركھا هے وه اس كے راستے ميں نچھاور كر دو. جيسا كه سورة الحديد ميں فرمايا گيا هے:

﴿آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ﴾ {الحديد: 7}.

          «ايمان لاؤ الله پر اور اس كے رسول پر اور خرچ كر دو اس سب ميں سے جس پر اس نے تمهيں خلافت عطا كى هے. تو جو لوگ تم ميں سے ايمان لائے اور انهوں نے (اپنے مال وجان كو بھى) خرچ كيا، ان كے ليے بهت بڑا اجر هے».

UP
X
<>