May 18, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 163

واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً وَيَوْمَ لاَ يَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ 

اور اِن سے اُس بستی کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے آ باد تھی، جب وہ سبت (سنیچر) کے معاملے میں زیادتیاں کرتے تھے، جب اُن (کے سمندر) کی مچھلیاں سنیچر کے دن تو اُچھل اُچھل کر سامنے آتی تھیں ، اور جب وہ سنیچر کا دن نہ منارہے ہوتے، تو وہ نہیں آتی تھیں ۔ اس طرح اُن کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ہم انہیں آزماتے تھے

آیت 163:  وََسْئَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ:  ’’اور ان سے ذرا پوچھئے اس بستی کے بارے میں جو ساحل سمندر پر تھی۔‘‘

            اب یہ اصحابِ سبت کا واقعہ آ رہا ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بستی اس مقام پر واقع تھی جہاں آج کل ’’ایلات‘‘ کی بندر گاہ ہے۔ 1966ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر نے اسی بندرگاہ کا گھیراؤ کیا تھا‘ جس کے خلاف اسرائیل نے شدید ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے مصر، شام اور اردن پر حملہ کر کے ان کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ مصر سے جزیرہ نمائے سینا‘ شام سے جولان کی پہاڑیاں اور اردن سے پورا مغربی کنارہ‘ جو فلسطین کا زرخیز ترین علاقہ ہے‘ ہتھیا لیا تھا۔ بہر حال ایلات کی اس بندرگاہ کے علاقے میں مچھیروں کی وہ بستی آباد تھی جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔

            اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ:  ’’جب کہ وہ سبت کے قانون میں حد سے تجاوز کرنے لگے‘‘

            اِذْ تَاْتِیْہِمْ حِیْتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا:  ’’جب کہ آتی تھیں اُن کی مچھلیاں اُن کے پاس ہفتے کے دن چھلانگیں لگاتی ہوئی‘‘

            شُرَّعًا کے معنی ہیں سیدھے اٹھائے ہوئے نیزے۔ یہاں یہ لفظ مچھلیوں کے لیے آیا ہے تو اس سے منہ اٹھائے ہوئے مچھلیاں مراد ہیں۔ کسی جگہ مچھلیوں کی بہتات ہو اور وہ بے خوف ہو کر بہت زیادہ تعداد میں پانی کی سطح پر ابھرتی ہیں، چھلانگیں لگاتیں ہیں۔ اس طرح کے منظر کو یہاں  شُرَّعًا سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ یعنی مچھلیوں کی اس بے خوف اچھل کود کا منظر ایسے تھا جیسے کہ نیزے چل رہے ہوں۔ دراصل تمام حیوانات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس سے نواز رکھا ہے۔ ان مچھلیوں کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہفتے کے دن خاص طور پر ہمیں کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ اس لیے اس دن وہ بے خوف ہو کر ہجوم کی صورت میں اٹھکیلیاں کرتی تھیں، جبکہ وہ لوگ جن کا پیشہ ہی مچھلیاں پکڑنا تھا وہ ان مچھلیوں کو بے بسی سے دیکھتے تھے‘ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے‘ کیونکہ یہود کی شریعت کے مطابق ہفتے کے دن ان کے لیے کاروبارِ دنیوی کی ممانعت تھی۔

            وَّیَوْمَ لاَ یَسْبِتُوْنَ لاَ تَاْتِیْہِمْ:  ’’اور جس دن سبت نہیں ہوتا تھا وہ ان کے قریب نہیں آتی تھیں‘‘

            ہفتے کے باقی چھ دن مچھلیاں ساحل سے دور گہرے پانی میں رہتی تھیں، جہاں سے وہ انہیں پکڑ نہیں سکتے تھے‘ کیونکہ اس زمانے میں ابھی ایسے جہاز اور آلات وغیرہ ایجاد نہیں ہوئے تھے کہ وہ لوگ گہرے پانی میں جا کر مچھلی کا شکار کر سکتے۔

            کَذٰلِکَ نَـبْلُوْہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ:  ’’اس طرح ہم انہیں آزماتے تھے بوجہ اس کے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔‘‘

            آئے دن کی نا فرمانیوں کی وجہ سے ان کو اس آزمائش میں ڈالا گیا کہ شریعت کے حکم پر قائم رہتے ہوئے فاقے برداشت کرتے ہیں یا پھر نافرمانی کرتے ہوئے شریعت کے ساتھ تمسخر کی صورت نکال لیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اس قانون میں چور دروازہ نکال لیا۔ وہ ہفتے کے روز ساحل پر جا کر گڑھے کھودتے اور نالیوں کے ذریعے سے انہیں سمندر سے ملا دیتے۔ اب وہ سمندر کا پانی ان گڑھوں میں لے کر آتے تو پانی کے ساتھ مچھلیاں گڑھوں میں آ جاتیں اور پھر وہ ان کی واپسی کا راستہ بند کر دیتے۔ اگلے روز اتوار کو جا کر ان مچھلیوں کو آسانی سے پکڑ لیتے اور کہتے کہ ہم ہفتے کے روز تو مچھلیوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس طرح شریعت کے حکم کے ساتھ انہوں نے یہ مذاق کیا کہ اس حکم کی اصل روح کو مسخ کر دیا۔ حکم کی اصل روح تو یہ تھی کہ چھ دن دنیا کے کام کرو اور ساتواں دن اللہ کی عبادت کے لیے وقف رکھو، جبکہ انہوں نے یہ دن بھی گڑھے کھودنے‘ پانی کھولنے اور بند کرنے میں صرف کرنا شروع کر دیا۔

            اب اس آبادی کے لوگ اس معاملے میں تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک گروہ تو براہِ راست اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھا۔ جب کہ دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل تھے جو اس گناہ میں ملوث تو نہیں تھے مگر گناہ کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے‘ بلکہ اس معاملے میں یہ لوگ خاموش اور غیر جانبدار رہے۔ تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو گناہ سے بچے بھی رہے اور پہلے گروہ کے لوگوں کو ان حرکتوں سے منع کر کے باقاعدہ نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ اب اگلی آیت میں دوسرے اور تیسرے گروہ کے افراد کے درمیان مکالمہ نقل ہوا ہے۔ غیر جانبدار رہنے والے لوگ نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ اللہ کے نافرمان لوگ تو تباہی سے دو چار ہونے والے ہیں، انہیں سمجھانے اور نصیحتیں کرنے کا کیا فائدہ؟

UP
X
<>