May 8, 2024

قرآن کریم > الـمعارج >sorah 70 ayat 25

لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ

سوالی اور بے سوالی کا

آيت 25: لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ: «مانگنے والے كا اور محروم كا۔»

          ايسے لوگ يه نهيں سمجھتے كه جو كچھ انهوں نے كمايا هے ياجو كچھ بھى انهيں مل گيا هے وه سب ان كا هے، بلكه وه اپنے اموال ميں سے ايك معين حصه معاشرے كے ان محروم اور نادار افراد كے ليے مختص كيے ركھتے هيں جو اپنى كسى مجبورى كى وجه سے دوسروں كے سامنے هاتھ نهيں پھيلا سكتے۔ در اصل الله تعالى آزمائش كے ليے بعض لوگوں كے حصے كا كچھ رزق بعض دوسرے لوگوں كے رزق ميں شامل كرديتا هے۔ چناں چه متمول افراد كو چاهيے كه وه اپنے اموال ميں سے مساكين و فقراء كا حصه الگ كركے «حق به حق دار رسيد» كے اصول كے تحت خود ان تك پهنچانے كا انتظام كريں۔ ياد رهے سورة المؤمنون ميں اس آيت كے مقابل يه آيت هے: (وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ) «اور وه جو هر دم اپنے تزكيے كى طرف متوجه رهنے والے هيں»۔ ان دونوں  آيات پر غور كرنے سے يه نكته واضح هوتا هے كه زكوة (غرباء و مساكين كا حق) ادا كردينے سے نه صرف بقيه مال پاك هوجاتا هے بلكه يه انفاق انسان كے تزكيه باطن كا باعث بھى بنتا هے۔ اس نكتے كى وضاحت سورة الحديد كى آيت 17 اور 18 كے ضمن ميں بھى كى جا چكى هے۔ در اصل مال كى محبت جب كسى كے دل ميں گھر كر جاتى هے تو يوں سمجھ ليجيے كه اس دل ميں گندگى كے انبار لگ جاتے هيں۔ ايسى صورت ميں دل كى صفائى يعنى تزكيه باطن كا مؤثر ترين طريقه يهى هے كه انفاق فى سبيل الله كے ذريعے مال كى محبت كو دل سے نكالا جائے۔ ليكن اس كے بر عكس اگر كوئى شخص اپنے مال كو تو سينت سينت كر ركھتا هے اور محض مراقبوں كے بل پر اپنے باطن اور نفس كا «تزكيه» چاهتا هے وه گويا سراب كے پيچھے بھاگ بھاگ كر خود كو هلكان كر رها هے۔

UP
X
<>