April 26, 2024

قرآن کریم > الجن >sorah 72 ayat 27

إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا

سوائے کسی پیغمبر کے جسے اُس نے (اس کام کیلئے) پسند فرمالیا ہو۔ ایسی صورت میں وہ اُس پیغمبر کے آگے اور پیچھے کچھ محافظ لگا دیتا ہے

آيت 27: إِلاَّ مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ: «سوائے اس كے جس كو اس نے پسند فرماليا هو اپنے رسولوں ميں سے»

          اس آيت ميں علم غيب كے بارے ميں بهت اهم اصول بتاديا گيا هے۔ يعنى غيب كا علم صرف الله تعالى كے پاس هے۔ وه اپنے رسولوں ميں سے جسے چاهتا هے اور جس قدر چاهتا هے اس بارے ميں مطلع فرماتا هے۔ اس اصول كے تحت ديكھا جائے تو حضور صلى الله عليه وسلم كى ذات سے متعلق علم غيب كا مسئله خواه مخواه متنازعه بناديا گيا هے۔ اگر تو كوئى شخص علم غيب سے مراد ايسا علم ليتا هے جو بغير كسى كے بتائے هوئے حاصل هو تو ايسا كوئى علم الله كى مخلوق ميں سے كسى كے پاس بھى نهيں هے۔ هر كسى كو جو بھى علم ملا هے كسى نه كسى كے سكھانے سے هى ملا هے۔ حضور صلى الله عليه وسلم كا علم بھى الله تعالى كا عطا كرده هے۔ حضرت جبريل عليه السلام كو بھى علم الله تعالى نے هى عطا كيا هے۔ هم جيسے عام انسان بھى اپنے والدين، اساتذه اور بڑوں سے هى سيكھتے هيں۔

          اس ضمن ميں سب سے پهلے علم غيب كى درست تعريف (definition) طے كرنا ضرورى هے۔ يه حقيقت هر كوئى تسليم كرتا هے كه «غيب» كا تعلق مخلوق سے هے، الله تعالى كے ليے تو كوئى چيز «غيب» هے هى نهيں۔ هر شے هر آن اس كے سامنے موجود هے۔ بهر حال الله تعالى نے جو چيزيں يا خبريں هم انسانوں سے پوشيده ركھى هيں وه همارے ليے «عالم غيب» هے۔ مثلاً جنت، دوزخ، فرشتے وغيره۔ اس بارے ميں بھى كسى كو كوئى اختلاف نهيں كه انبياء و رسل عليهم السلام كو غيب كى خبريں بھى دى جاتى هيں اور كسى حد تك انهيں عالم غيب كا مشاهده بھى كرايا جاتا هے: (وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ) (الانعام) «اور اسى طرح هم دكھاتے رهے ابراهيم عليه السلام كو آسمانوں اور زمين كے ملكوت تاكه وه پورى طرح يقين كرنے والوں ميں سے هوجائے»۔ حضور صلى الله عليه وسلم كو معراج كے موقع پر جنت، دوزخ اور بهت سى دوسرى كيفيات كا مشاهده كرايا گيا، بلكه غيب سے متعلق ايسے مشاهدات آپ صلى الله عليه وسلم كو عام معمول كى زندگى ميں بھى كرائے جاتے تھے۔ مثلاً ايك مرتبه آپ صلى الله عليه وسلم نماز استسقاء پڑھا رهے تھے تو نماز كے دوران آپ صلى الله عليه وسلم اچانك ايك دفعه آگے بڑهے اور پھر اسى انداز ميں پيچھے هٹے۔ بعد ميں صحابه كرام رضى الله عنهم نے آپ صلى الله عليه وسلم كے اس عمل كا سبب دريافت كيا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه ميرے سامنے اچانك جنت لے آئى گئى تو ميں نے چاها كه اس كا پھل توڑ لوں۔ چناں چه ميرا هاتھ بے اختيار اس كى طرف بڑھ گيا۔ اس كے بعد ميرے سامنے دوزخ لے آئى گئى تو اس كى تپش كى وجه سے ميں بے اختيار پيچھے هٹ گيا۔ بهر حال علم كے اعتبار سے ايك عام انسان اور ايك نبى ميں بنيادى طور پر يهى فرق هے كه نبى كو عالم غيب كا علم بھى ديا جاتا هے۔ ورنه جهاں تك امور دنيا كے علم كا تعلق هے اس بارے ميں حضور صلى الله عليه وسلم كا واضح فرمان موجود هے۔ ايك موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے صحابه رضى الله عنهم كو مخاطب كركے فرمايا تھا: (أنتُم أعلَمُ بِأمُورِ دُنيَاكُم) كه دنيا دارى كے اپنے معاملات كے بارے ميں تم لوگ بهتر جانتے هو۔ چناں چه اصل حقيقت يه هے كه الله تعالى انبياء ورسل عليهم السلام كو جب چاهے جس قدر چاهے عالم غيب كا مشاهده كرا دے يا غيب كے علم ميں سے جتنا علم چاهے عطا فرما دے۔ البته جو كوئى يه مانے كه نبى مكرم صلى الله عليه وسلم كو كل غيب كا علم تھا وه كافر هے۔

          حضور صلى الله عليه وسلم كے علم غيب كے بارے ميں بريلوى مكتبه فكر كے علماء كا نقطه نظر كيا هے؟ اس سوال كا جواب جاننے كے ليے ميں نے اپنے زمانه طالب علمى ميں ذاتى طور پر متعدد بريلوى علماء سے ملاقاتيں كيں۔ ميں جتنے علماء سے ملا ان سب كو ميں نے مندرجه ذيل تين نكات پر متفق پايا:

(1)            حضور صلى الله عليه وسلم كا علم ذاتى نهيں، عطائى هے، يعنى الله كا عطا كرده هے۔

(2)            آپ صلى الله عليه وسلم كا علم قديم نهيں حادث هے۔ يعنى پهلے نهيں تھا، جب الله نے عطا كيا تو آپ صلى الله عليه وسلم كو علم هوگيا۔

(3)            آپ صلى الله عليه وسلم كا علم لا محدود نهيں، محدود هے۔

             در اصل ان تين نكات كے بارے ميں مسلمانوں كے كسى مكتبه فكر ميں كوئى اختلاف نهيں پايا جاتا۔ چناں چه اس كا سيدھا ساده مطلب يه هے كه يه مسئله سرے سے بحث طلب هے هى نهيں۔ الله تعالى نے اپنے نبى صلى الله عليه وسلم كو علم غيب عطا فرمايا، جب چاها اور جتنا چاها عطا فرمايا۔ اب كيا ميں اور آپ اس بارے ميں بحث كريں گے كه حضور صلى الله عليه وسلم كو كس چيز كا علم تھا اور كس چيز كا علم نهيں تھا؟ ميرى اور آپ كى حيثيت هى كيا هے كه هم حضور صلى الله عليه وسلم كے علم كے بارے ميں ناپ تول كريں۔ معاذ الله!

فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا: «تو اس كے آگے اور پيچھے وه محافظ لگا ديتا هے۔»

          يعنى جب الله تعالى وحى كے ذريعے غيب كے حقائق كا علم رسول كے پاس بھيجتا هے تو اس كى حفاظت كے ليے هر طرف فرشتے مقرر كر ديتا هے تاكه وه علم نهايت محفوظ طريقے سے رسول تك پهنچ جائے۔

UP
X
<>