April 27, 2024

قرآن کریم > الأنفال >surah 8 ayat 7

وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتِيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَن يُحِقَّ الحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ 

اور وہ وقت یاد کرو جب اﷲ تم سے یہ وعدہ کر رہاتھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا، اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمہیں ملے، اور اﷲ یہ چاہتا تھا کہ اپنے اَحکام سے حق کو حق کر دکھائے، اور کافروں کی جڑ کاٹ دالے

آیت 7:   وَاِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَــکُمْ:  ’’اور یاد کرو جبکہ اللہ وعدہ کر رہا تھا تم لوگوں سے کہ ان دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا‘‘

             لشکر یا قافلے میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کی فتح کی ضمانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دے دی گئی تھی۔

             وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَـکُوْنُ لَـکُمْ:  ’’اور (اے مسلمانو!) تم یہ چاہتے تھے کہ جو بغیر کانٹے کے ہے وہ تمہارے ہاتھ آئے‘‘

            تم لوگوں کی خواہش تھی کہ لشکر اور قافلے میں سے کسی ایک کے مغلوب ہونے کی ضمانت ہے تو پھر غیر مسلح گروہ یعنی قافلے ہی کی طرف جایا جائے‘ کیونکہ اس میں کوئی خطرہ اور خدشہ (risk) نہیں تھا۔ قافلے کے ساتھ بمشکل پچاس یا سو آدمی تھے جبکہ اس میں پچاس ہزار دینار کی مالیت کے سازوسامان سے لدے پھندے سینکڑوں اونٹ تھے‘ لہٰذا اس قافلے پر بڑی آسانی سے قابو پایا جا سکتا تھا اور بظاہر عقل کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ان لوگوں کی دلیل یہ تھی کہ ہمارے پاس تو ہتھیار بھی نہیں ہیں اور سامانِ رسد وغیرہ بھی نا کافی ہے‘ ہم پوری تیاری کر کے مدینے سے نکلے ہی نہیں ہیں‘ لہٰذا یہ بہتر ہو گا کہ پہلے قافلے کی طرف جائیں‘ اس طرح سازو سامان بھی مل جائے گا‘ اہل قافلہ کے ہتھیار بھی ہمارے قبضے میں آ جائیں گے اور اس کے بعد لشکر کا مقابلہ ہم بہتر انداز میں کر سکیں گے۔ تو گویا عقل و منطق بھی اسی رائے کے ساتھ تھی۔

             وَیُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ:  ’’اور اللہ چاہتا تھا کہ اپنے فیصلے کے ذریعے سے حق کا حق ہونا ثابت کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔‘‘

            یہ وہی بات ہے جو ہم سورۃ الانعام (آیت: 45) میں پڑھ آئے ہیں: فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا.  کہ ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی۔ یعنی اللہ کا ارادہ کچھ اور تھا۔ یہ سب کچھ دنیا کے عام قواعد و ضوابط (physical laws) کے تحت نہیں ہونے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ بنانا چاہتا تھا۔ وہ تین سو تیرہ نہتے افراد کے ہاتھوں کیل کانٹے سے پوری طرح مسلح ایک ہزار جنگجوؤں کے لشکر کو ذلت آمیز شکست دلوا کر دکھانا چاہتا تھا کہ اللہ کی تائید و نصرت کس کے ساتھ ہے اور چاہتا تھا کہ کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دے۔ 

UP
X
<>