May 5, 2024

قرآن کریم > الفجر >sorah 89 ayat 17

كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ

ہر گز ایسا نہیں چاہئے۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے

آيت 17: كَلَّا: «ايسا هر گز نهيں هے!»

        يه مقام اپنے مضمون كے اعتبار سے پورے قرآن مجيد ميں منفرد اور ممتاز هے۔ مذكوره دونوں كيفيات كے حوالے سے انسان كے جن مكالمات كا يهاں ذكر هوا هے بظاهر ان ميں كوئى خرابى يا شرك كى آلودگى نظر نهيں آتى۔

        دونوں كلمات توحيد كے عين مطابق هيں۔ رزق كى فراخى اور تنگى كے حوالے سے عزت اور ذلت كو كسى ديوى يا ديوتا سے نهيں بلكه الله تعالى سے منسوب كيا گيا هے كه ميرے رب نے مجھے عزت دى هے اور يه كه ميرے رب نے مجھے ذليل كيا هے۔ بظاهر تو يه الله تعالى كے فرمان (وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ) (آل عمران) كا اقرار هے، كه اے الله تو جس كو چاهتا هے عزت ديتا هےاور تو جسے چاهتا هے ذليل كرديتا هے۔ تو پھر يهاں ان جملوں كو آخر قابل مذمت كيوں ٹھهرايا گيا هے؟ اس نكته لطيف كو سمجھنے كے ليے اس حقيقت كو پيش نطر ركھنا ضرورى هے كه توحيد تو هدايت كى جڑ اور بنياد هے، جب كه اس بنياد سے اوپر بھى هدايت كى بهت سارى منازل هيں۔ اس ليے ايك بنده مؤمن كو زندگى ميں راه نمائى كے ليے اپنى نگاهيں صرف ميناره توحيد پر هى نهيں مركوز ركھنى چاهئيں بلكه اسے شاهراه هدايت كے هر سنگ ميل اور هر موڑ كو پيش نظر ركھتے هوئے اپنے انداز فكر اور طرز عمل كا رخ متعين كرنا چاهيے۔

        چناں چه ان جملوں كے حوالے سے اصل اور بنيادى خرابى يه هے كه يهاں انسانى سوچ نے رزق كى فراخى اور تنگى كو عزت اور ذلت كا معيار سمجھ ليا هے اور اس حقيقت كو نظر انداز كرديا هے كه انسان كے رزق كى بست و كشاد الله تعالى كى طرف سے هميشه امتحان اور آزمائش كے ليے هوتى هے۔ الله تعالى انسان كو كبھى زياده رزق دے كر آزماتا هے تو كبھى اس كو معاشى تنگى سے دوچار كركے اس كا امتحان ليتا هے۔ گويا انسان كے ليے عيش و آرام اور مال و دولت كى فروانى ميں بھى امتحان هے اور رنج و عسرت اور تنگ دستى و نادارى بھى امتحان هى كے مراحل هيں۔

        اس زاويے سے ديكھا جائے تو جس انسان نے مال و دولت كى كمى زيادتى كو ذلت اور عزت كا معيار سمجھ ليا وه دھوكا كھا گيا۔ ايك بنده مؤمن كو تو دنيوى عزت و ذلت كى ويسے بھى پرواه نهيں هونى چاهيے۔ ظاهر هے اصل اور حقيقى عزت يا ذلت كا فيصله تو قيامت كے دن هوگا۔ چناں چه جس انسان كو الله تعالى رزق كى فراخى سے آزما رها هے اس كى عزت اس ميں هے كه وه الله كى نعمتوں كا شكر ادا كرے، اور اپنے دائيں بائيں محروم ونادار لوگوں كو ان كا وه حق ادا كرے جو الله تعالى نے آزمائش كى غرض سے اس كے مال ميں ركھ ديا هے۔ اسى طرح جس شخص كا امتحان رزق كى تنگى كے ساتھ هورها هے اس كى عزت اس ميں هے كه وه صبر كرے اور اپنى عزت نفس كو بچا كر ركھے۔

        اس معاملے كا ايك اهم پهلو يه بھى هے كه اگر رزق كى كمى بيشى اور عزت و ذلت كے حوالے سے مذكوره فلسفه واقعتاً همارى سمجھ ميں آبھى جائے تو بھى همارا نفس هميں يه پٹى ضرور پڑھاتا هے كه رزق كى فراخى والى آزمائش آسان هے اور اس كے مقابلے ميں غربت و تنگ دستى كى آزمائش بهت مشكل هے، جبكه اصل حقيقت اس كے برعكس هے۔ اس حوالے سے اصل حقيقت يه هے كه غربت وتنگدستى كى آزمائش سے سرخرو هونا انسان كے ليے نسبتاً آسان هے اور اس كے مقابلے ميں مال و دولت كى فراوانى كى آزمائش ميں ثابت قدم رهنا بهت مشكل هے۔ اس كى بنيادى وجه يه هے كه آسائش و آرام ميں انسان كے غافل هو جانے اور الله كو بھول جانے كا زياده امكان هے، جب كه مشكل اور پريشانى كى كيفيت ميں انسان هر وقت الله تعالى كو ياد كرتا رهتا هے۔ اس حوالے سے حضور صلى الله عليه وسلم كا فرمان هے: (مَا قَلَّ وَكَفَى خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهَى) «جو (مال) مقدار ميں كم هو مگر كفايت كر جائے وه اس سے بهتر هے جو زياده هو مگر غافل كردے۔»

        امام احمد بن حنبل رحمه الله جب خليفه وقت كے عتاب كا شكار هوئے تو جيل ميں آپ پر بے پناه تشدد كيا گيا۔ مؤرخين لكھتے هيں كه اس زمانے ميں آپ كو جس تشدد كا سامنا كرنا پڑا ويسا تشدد اگر هاتھى پر بھى كيا جاتا تو وه بھى بلبلا اٹھتا۔ ليكن آپ نے وه اذيت ناك آزمائش كمالِ صبر واستقامت سے برداشت كى اوراس دوران آنكھوں ميں كبھى آنسو تك نه آنے ديے۔ ليكن دوسرے خليفه كے دور ميں جب آپ كو رهائى ملى اور آپ كى خدمت ميں اشرفيوں كے توڑے بطور نذرانه پيش كيے گئے تو آپ يه «نذرانه» ديكھ كر بے اختيار رو پڑے اور الله تعالى كے حضور التجا كى كه اے الله! تيرى يه آزمائش بهت سخت هے، ميں اس آزمائش كے قابل نهيں هوں۔

        اس سارى گفتگو كا خلاصه يه هے كه «توحيد» هدايت كا پهلا اور بنيادى درجه هے۔ اگر انسان اپنے اچھے برے هر طرح كے حالات كو من جانب الله سمجھے تو اس كا يه طرز عمل توحيد كے عين مطابق هے۔ ليكن اس كے اوپر بھى هدايت كے بهت سے درجات هيں۔ ان درجات ميں سے ايك درجه يه هے كه انسان الله تعالى كى آزمائش وابتلاء كے اصول وضوابط كو سمجھے اور يقين ركھے كه دنيا كے عيش وآرام اور تنگ دستى وعسرت كى كيفيات الله تعالى كى آزمائش هى كى مختلف صورتيں هيں اور يه كه تنگ دستى وعسرت كى آزمائش كے مقابلے ميں دولت كى فراوانى كى آزمائش كهيں زياده سخت اور خطرناك هے۔

كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ: «ايسا هر گز نهيں، ليكن تم لوگ يتيم كى عزت نهيں كرتے۔»

UP
X
<>