May 3, 2024

قرآن کریم > التوبة >surah 9 ayat 74

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ 

یہ لوگ اﷲ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں بات نہیں کہی، حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہی ہے، اور اپنے اسلام لانے کے بعد انہوں نے کفر اختیار کیا ہے۔ انہوں نے وہ کام کرنے کا ارادہ کر لیا تھا جس میں یہ کامیابی حاصل نہ کر سکے، اورانہوں نے صرف اس بات کا بدلہ دیا کہ اﷲ اور اُس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے مال دار بنادیا ہے۔ اب اگر یہ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا، اور اگر یہ منہ موڑیں گے تو اﷲ ان کو دُنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب دے گا، ا ور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی یارہوگا نہ مدد گار

 آیت 74: یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوْا: ‘‘وہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات نہیں کی۔‘‘

            یہ جس بات کا ذکر ہے اس کی تفصیل اٹھائیسویں پارے کی سورۃ المنافقون میں آئے گی۔ بہر حال یہاں صرف اتنا جان لینا ضروری ہے کہ تبوک سے واپسی کے سفر پر عبد اللہ بن ابی کے منہ سے کسی نوجوان مسلمان نے غلط بات سنی تو اس نے آ کر رسول اللہ  سے اس کا ذکر کر دیا۔ آپ نے طلب فرما کر باز پرس کی تو وہ صاف مکر گیا کہ اس نوجوان نے خواہ مخواہ فتنہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

            وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ: ‘‘حالانکہ انہوں نے کہا ہے کفر کا کلمہ‘‘

            عبداللہ بن ابی کے مکر جانے پر یہ  آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو سچا قرار دیا اور اس منافق کے جھوٹ کا پردہ چاک کر دیا۔

            وَکَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلاَمِہِمْ وَہَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا: ‘‘اور وہ کفر کر چکے اپنے اسلام کے بعد‘ اور انہوں نے ارادہ کیاتھااس شے کا جو وہ حاصل نہ کر سکے۔‘‘

            یہ جس واقعے کی طرف اشارہ ہے وہ بھی غزوه تبوک سے واپسی کے سفر میں پیش آیا تھا۔ پہاڑی راستہ میں ایک موقع پر رسول اللہ کا گزر ایک ایسی تنگ گھاٹی سے ہوا جہاں سے ایک وقت میں صرف ایک اونٹ گزر سکتا تھا۔ اس موقع پر آپ قافلے سے علیحدہ تھے اور آپ کے ساتھ صرف دو صحابہ حضرت حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر تھے۔ اس تنگ جگہ پر کچھ منافقین نے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے پہچانے جانے کے ڈر سے ڈھاٹے باندھ رکھے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ حضور کو (نعوذ باللہ) شہید کر دیں۔ بہر حال آپ کے جاں نثار صحابہ نے حملہ آوروں کو مار بھگایا اور وہ اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس موقع پر رسول اللہ نے اپنے ان دو صحابہ کو حملہ آوروں میں سے ہر ایک کے نام بتا دیے اور ان کے علاوہ بھی تمام منافقین کے نام بتا دیے۔ مگر ساتھ ہی آپ نے ان دونوں حضرات کو تاکید فرما دی کہ وہ یہ نام کسی کو نہ بتائیں اور آپ کے اس راز کو اپنے پاس ہی محفوظ رکھیں۔ اسی وجہ سے حذیفہ بن یمان صحابہ میں ‘‘صاحبُ سِرِّ النَّبِی‘‘ (نبی کے رازدان) کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے۔

            وَمَا نَقَمُوْٓا اِلآَّ اَنْ اَغْنٰہُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ مِنْ فَضْلِہ: ‘‘اور یہ لوگ اپنے عناد کا مظاہرہ نہیں کررہے مگر اسی لیے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے انہیں غنی کر دیا ہے اپنے فضل سے۔‘‘

            یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رسول کی مہربانی سے یہ لوگ مالِ غنیمت اور زکوٰۃ و صدقات میں سے با فراغت حصہ پاتے رہے۔

            فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَکُ خَیْرًا لَّہُمْ: ‘‘اب بھی اگر یہ توبہ کر لیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔‘‘

            وَاِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ عَذَابًا اَلِیْمًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ: ‘‘اور اگر وہ پیٹھ موڑیں گے تو اللہ انہیں بہت درد ناک عذاب دے گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔‘‘

            وَمَا لَہُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ: ‘‘اور پوری زمین میں ان کا نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی مددگار۔‘‘

            اب وہ تین آیات آ رہی ہیں جن کا حوالہ میری تقاریر میں اکثر آتا رہتا ہے۔ ان میں مدینہ کے منافقین کی ایک خاص قسم کا تذکرہ ہے‘ مگر مسلمانانِ پاکستان کے لیے ان آیات کا مطالعہ بطورِ خاص مقامِ عبرت بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی۔ 

UP
X
<>