April 26, 2024

قرآن کریم > اللـيـل >sorah 92 ayat 10

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى

تو ہم اُس کو تکلیف کی منزل تک پہنچنے کی تیاری کرادیں گے

آيت 10: فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى: «تو اس كو هم رفته رفته مشكل منزل (جهنم) تك پهنچاديں گے۔»

          يه هيں انسانى كوشش اور مشقت كے دوزخ۔ گويا پهلى تين شرائط كو اپنانے كا راسته صديقين اور شهداء كا راسته هے۔ اگر كسى نے كوشش كى ليكن وه مذكوره تينوں شرائط كو كما حقه پورا نه كرسكا تو اس كا معامله الله تعالى كے هاں اس كى كوشش اور اخلاص كے مطابق هوگا۔ ليكن جس بدقسمت شخص كى كوشش اور محنت ميں ان تينوں اوصاف كا فقدان هوا اور وه ان كے مقابلے ميں عمر بھر دوسرے راستے (بخل، استغناء اور تكذيب) پر گامزن رها، ظاهر هے ان كا شمار بد ترين لوگوں كے گروه ميں هوگا جس كے سرغنه ابو لهب اور ابو جهل هيں۔

يهاں ضمنى طور پر يه بھى جان ليجيے كه ابو جهل كے مقابلے ميں ابو لهب كا كردار كهيں زياده گھٹيا اور مذموم تھا، بلكه قرآن مجيد نے جس انداز ميں اس كى مذمت كى هے اس سے تو يهى ثابت هوتا هے كه وه اپنے گروه كا بد ترين فرد تھا۔ بزدلى، بخيلى اور حد سے بڑھى هوئى خود غرضى اس كے كردار كى نماياں خصوصيات تھيں۔ اس كے بخل اور مال كو سينت سينت كر ركھنے كا ذكر سورة اللهب ميں بھى آيا هے۔ اس كى بزدلى اور خود غرضى كا پول اس وقت كھلا جب اس كے سامنے اپنے «دين» كے ليے جنگ كرنے كا مرحله آيا، اس وقت اس نے اپنى جگه كرائے كے دو سپاهيوں كو لڑنے كے ليے بھيج ديا۔ اس كے مقابلے ميں ابو جهل صاف گو، بهادر اور اپنے نظريے پر مر مٹنے والا شخص تھا۔ چناں چه اس نے اپنے باطل دين كى خاطر بڑے فخر سے گردن كٹوائى۔ انگريزى كى مثل هے: give the devil his due يعنى شيطان كے كردار ميں بھى اگر كوئى مثبت خصوصيت هو تو اس كے اعتراف ميں كوئى حرج نهيں۔ ظاهر هے اس كى شخصيت ميں آخر كوئى تو خوبى تھى جس كى بنا پر حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنى خصوصى دعا ميں اسے اور حضرت عمر رضى الله عنه كو ايك هى پلڑے ميں ركھا تھا۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے تو ان دونوں شخصيات كے ليے برابر كى دعا كى تھى كه اے الله! عمر بن خطاب اور عمرو بن هشام ميں سے كسى ايك كو ميرى جھولى ميں ڈال دے! حضور صلى الله عليه وسلم كى اس دعا كى روشنى ميں تو يه بھى كها جا سكتا هے كه اگر ابو جهل ايمان لے آتا تو وه حضرت عمر رضى الله عنه كے پائے كا مسلمان هوتا، نه كه عبد الله بن ابى كے كردار والا مسلمان۔

          بهر حال ان آيات ميں انسان كى كاميابى اور ناكامى كے معيار اور اوصاف كى واضح طور پر نشان دهى كردى گئى هے۔ جو انسان اپنى سيرت و شخصيت كى بنياد پهلے تين اوصاف (بحواله آيت 5 اور 6) پر ركھے گا وه ان شاء الله كاميابى سے هم كنار هوگا اور جو آخرى تين اوصاف (بحواله آيت 8 اور 9) كا انتخاب كرے گا وه بد ترين خلائق قرار پائے گا۔

UP
X
<>