May 6, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 11

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ فَنَذَرُ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ 

اور اگر اﷲ (ان کافر) لوگوں کو برائی (یعنی عذاب) کا نشانہ بنانے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا، جتنی جلدی وہ اچھائیاں مانگنے میں مچاتے ہیں تو اُن کی مہلت تمام کردی گئی ہوتی۔ (لیکن ایسی جلد بازی ہماری حکمت کے خلاف ہے) لہٰذا جو لوگ ہم سے (آخرت میں ) ملنے کی توقع نہیں رکھتے، ہم اُنہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنی سر کشی میں بھٹکتے پھریں ۔

 آیت ۱۱:  وَلَوْ یُعَجِّلُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَہُمْ بِالْخَیْرِ:  «اور اگر اللہ جلدی کر دیتا لوگوں کے لیے شر، جیسے کہ وہ جلدی چاہتے ہیں خیر»

            انسان جلد باز ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی کوششوں کے نتائج جلد از جلد اس کے سامنے آ جائیں۔ مگر اللہ تو بڑا حکیم ہے، اس نے ہر کام اور ہر واقعہ کے لیے اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق وقت مقرر کر رکھاہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کس کام میں خیر ہے اور کس میں خیر نہیں ہے۔ اگر اللہ انسان کی غلطیوں اور برائیوں کے بدلے اورنتائج بھی فوراً ہی ان کے سامنے رکھ دیا کرتا اور ان کے جرائم کی سزائیں بھی فوراً ہی ان کو دے دیا کرتا تو:

             لَقُضِیَ اِلَیْہِمْ اَجَلُہُمْ:  «ان کی اجل پوری ہو چکی ہوتی»

            یعنی ان کی مہلت عمر کبھی کی ختم ہو چکی ہوتی۔

             فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ:  «پھر ہم ان لوگوں کو چھوڑ دیں گے جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں، کہ وہ اپنی سرکشی میں اندھے ہو کر بڑھتے چلے جائیں۔»

            پھر وہی بات دہرائی گئی ہے۔ اس انداز میں ایک شانِ استغناء ہے کہ اگر وہ ہمیں ملنے کے امیدوار نہیں تو ہماری نظر التفات کو بھی اُن سے کوئی دلچسپی نہیں۔ 

UP
X
<>