May 6, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 18

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِي الأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ 

اور یہ لوگ اﷲ کو چھوڑ کر اُن (من گھڑت خداؤں ) کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں ، نہ ان کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ اﷲ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں ۔ (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : ’’ کیا تم اﷲ کو اُس چیز کی خبر دے رہے ہو جس کا کوئی وجود اﷲ کے علم میں نہیں ہے، نہ آسمانوں میں نہ زمین میں ؟ ‘‘ (حقیقت یہ ہے کہ) اﷲ ان کی مشرکانہ باتوں سے بالکل پاک اور کہیں بالا و بر تر ہے

 آیت ۱۸:  وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُٔنَا عِنْدَ اللّٰہِ:  «اور یہ لوگ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا یسی چیزوں کی جو نہ انہیں کوئی نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ نفع دے سکتی ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے ہاں۔»

            اس سے مشرکین مکہ کا بنیادی عقیدہ ظاہر ہو رہا ہے۔ وہ لوگ مانتے تھے کہ اس کائنات کا خالق اور مالک اللہ ہے۔ وہ اپنے بتوں کو کائنات کا خالق و مالک نہیں بلکہ اللہ کے قرب کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ جن ہستیوں کے نام پر یہ بت بنائے گئے ہیں وہ ہستیاں اللہ کے ہاں بہت مقرب اور محبوب ہونے کے باعث اس کے ہاں ہماری سفارش کریں گی۔

             قُلْ اَتُنَبِّؤنَ اللّٰہَ بِمَا لاَ یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِی الْاَرْضِ:  «آپ کہیے کہ کیا تم اللہ کو بتانا چاہتے ہو وہ شے جو وہ نہیں جانتا، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں؟»

            کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دینا چاہتے ہو جس کا اُس کو خود پتا نہیں؟ یہ وہی با ت ہے جو آیۃ الکرسی کی تشریح کے ضمن میں بیان ہو چکی ہے کہ ایسی کسی شفاعت کا آخر جواز کیا ہو گا؟ اللہ تو غائب اور حاضر سب کچھ جاننے والا ہے:   یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہ اِلاَّ بِمَا شَآءَ۔ تو پھر آخر کوئی سفارشی اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر کیا کہے گا؟ کس بنیاد پر وہ کسی کی سفارش کرے گا؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ اے اللہ! تو اس آدمی کو ٹھیک سے نہیں جانتا، میں اسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں، یہ بہت اچھا اور نیک آدمی ہے! تو کیا وہ اللہ کو وہ کچھ بتانا چاہے گا (معاذ اللہ) جس کو وہ خود نہیں جانتا؟

             سُبْحٰنَہ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ:  «وہ بہت پاک اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔»

UP
X
<>