May 4, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 22

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُواْ بِهَا جَاءتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُاْ اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنِّ مِنَ الشَّاكِرِينَ 

وہ اﷲ ہی تو ہے جو تمہیں خشکی میں بھی اور سمندر میں بھی سفر کراتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوارہوتے ہو، اور یہ کشتیاں لوگوں کو لے کر خوشگوار ہوا کے ساتھ پانی پر چلتی ہیں ، اور لوگ اس بات پر مگن ہوتے ہیں ، تو اچانک اُن کے پاس ایک تیز آندھی آتی ہے، اور ہر طرف سے اُن پر موجیں اُٹھتی ہیں ، اور وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے گھر گئے، تو اُس وقت وہ خلوص کے ساتھ صرف اﷲ پر اِعتقاد کر کے صرف اُسی کو پکارتے ہیں ، (اور کہتے ہیں کہ :) ’’ (یا اﷲ !) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم ضرور بالضرور شکر گذار لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ ‘‘

 آیت ۲۲:  ہُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ:  «وہی ہے جو تمہیں سیر کراتا ہے خشکی اور سمندرمیں۔»

            یعنی اللہ تعالیٰ نے مختلف قوانین طبعی کے تحت مختلف چیزوں کو سواریوں کے طور پر انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔

             حَتّٰیٓ اِذَا کُنْتُمْ فِی الْْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا:  «یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو، اور وہ چل رہی ہوتی ہیں انہیں(سواروں کو) لے کر خوشگوار (موافق) ہوا کے ساتھ اوروہ بہت خوش ہوتے ہیں»

             جَآءَتْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَآءَہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اُحِیْطَ بِہِمْ:  «کہ اچانک تیز ہوا کا جھکڑ چل پڑتا ہے اور ہر طرف سے موجیں اُ ن کی طرف بڑھنے لگتی ہیں اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ ان (لہروں) میں گھیر لیے گئے ہیں»

            ہر طرف سے پہاڑ جیسی لہروں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ بس اب وہ لہروں میں گھر گئے ہیں اور اُن کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔

             دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ:  «(اُس وقت) وہ پکارتے ہیں اللہ کو، اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے کہ (اے اللہ!) اگر ُتو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم لازماًہو جائیں گے بہت شکر کرنے والوں میں سے۔»

            ایسے مشکل وقت میں انہیں صرف اللہ ہی یاد آتا ہے، کسی دیوی یا دیوتا کا خیال نہیں آتا۔ اس سلسلے میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کے بارے میں بہت اہم واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد وہ حجاز سے فرار ہو کر حبشہ جانے کے لیے بعض دوسرے لوگوںکے ساتھ کشتی میں سوار تھے کہ کشتی اچانک طوفان میں گھر گئی۔ کشتی میں تمام لوگ مشرکین تھے، لیکن اس مصیبت کی گھڑی میں کسی کو بھی لات، منات، عزیٰ اور ہبل یاد نہ آئے اور انہوں نے مدد کے لیے پکارا تو اللہ کو پکارا۔ اسی لمحے عکرمہ کو اس حقیقت کے انکشاف نے چونکا دیا کہ یہی تو وہ پیغام ہے جو محمد ہمیں دے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ آئے اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے اور شرفِ صحابیت سے مشرف ہوئے۔ اس کے بعد یہی عکرمہ اسلام کے زبردست مجاہد ثابت ہوئے، اور حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت میں منکرین ِزکوٰۃ اور مرتدین کے خلاف جہاد میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے۔

            دراصل اللہ کی معرفت انسان کی فطرت کے اندر سمو دی گئی ہے۔ بعض اوقات باطل خیالات و نظریات کا ملمع اس معرفت کی قبولیت میں آڑے آ جاتا ہے، لیکن جب یہ ملمع اترنے کا کوئی سبب پیدا ہو تا ہے تو اندر سے انسانی فطرت اپنی اصلی حالت میں نمایاں ہو جاتی ہے جو حق کو پہچاننے میں لمحہ بھر کو دیر نہیں کرتی۔ 

UP
X
<>