May 4, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 24

إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاء فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالأَنْعَامُ حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَآ أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

دُنیوی زندگی کی مثال تو کچھ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا جس کی وجہ سے زمین سے اُگنے والی وہ چیزیں خوب گھنی ہوگئیں جو اِنسان اور مویشی کھاتے ہیں ، یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا یہ زیور پہن لیا، اور سنگھار کر کے خوشنما ہوگئی، اور اُس کے مالک سمجھنے لگے کہ بس اب یہ پوری طرح اُن کے قابو میں ہے، تو کسی دن یا رات کے وقت ہمارا حکم آگیا (کہ اُس پر کوئی آفت آجائے) ، اور ہم نے اُس کو کٹی ہوئی کھیتی کی سپاٹ زمین میں اس طرح تبدیل کر دیا جیسے کل وہ تھی ہی نہیں ۔ اسی طرح ہم نشانیوں کو اُن لوگوں کیلئے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں

 آیت ۲۴:  اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَأْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ:  «اس دنیا کی زندگی کی مثال تو ایسے ہے جیسے پانی، جو ہم برساتے ہیں آسمان سے، پھر اس کے ساتھ نکل آتا ہے زمین کا سبزہ، جس میں سے کھاتے ہیں انسان بھی اورچوپائے بھی۔»

            پانی کے بغیر زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے، اس میں گھاس، ہریالی وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جونہی بارش ہوتی ہے اس میں سے طرح طرح کا سبزہ نکل آتا ہے، فصلیں لہلہانے لگتی ہیں، باغات ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔

             حتّٰیٓ اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ:  «یہاں تک کہ جب زمین اچھی طرح اپنا سنگھار کر لیتی ہے اور خوب مزین ہو جاتی ہے»

            یہاں پر بہت خوبصورت الفاظ میں زمین کی شادابی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ چھوٹے بڑے نباتات کی نمائش، سبز پوش خوبصورتی کی بہار اور رنگا رنگ پھولوں کی زیبائش کے ساتھ جب زمین پوری طرح اپنا بناؤ سنگھار کرلیتی ہے، فصلیں اپنے جوبن پر آ جاتی ہیں اور باغات پھلوں سے لد جاتے ہیں :

             وَظَنَّ اَہْلُہَآ اَ نَّہُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْہَآ:  «اور اس کے مالک سمجھتے ہیں کہ اب ہم اس پر قادر ہیں»

            زمین والے لہلہاتی فصلوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب چند دن کی بات ہے، ہم اپنی فصلوں کی کٹائی کر یں گے، پھلوں کو پیڑوں سے اتار یں گے اور ہماری زمین کی یہ پیدوار ہماری خوشحالی کا ذریعہ بنے گی۔ مگر ہوتا کیاہے:

             اَتَاہَآ اَمْرُنَا لَیْلاً اَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنٰہَا حَصِیْدًا کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ:  «تواچانک ہمارا ایک حکم آتا ہے اس (کھیت یا باغ) پر رات کے وقت یا دن کے وقت اور ہم اسے کر دیتے ہیں کٹا ہوا جیسے کہ کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔»

            اللہ کے حکم سے ایسی آفت آئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری فصل تباہ ہو گئی، باغ اُجڑ گیا، ساری محنت اَکارت گئی، تمام سرمایہ ڈوب گیا۔ دنیا کی بے ثباتی کی اس مثال سے واضح کیا گیا ہے کہ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان اس دنیا میں دن رات محنت و مشقت او ر بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اگر انسان کی یہ ساری محنت اور تگ و دو اللہ کی مرضی کے دائرے میں نہیں ہے، اس سے شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے ہیں تو یہ سب کچھ اسی دنیا کی حد تک ہی ہے، آخرت میں ان میں سے کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ موت کے بعد جب اس کی آنکھ کھلے گی تووہ دیکھے گا کہ اس کی زندگی بھر کی ساری محنت اکارت چلی گئی:  ع «جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا!»

             کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ:  «اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔» 

UP
X
<>