May 19, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 46

وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ 

اور (اے پیغمبر !) جن باتوں کی ہم نے ان (کافروں کو) دھمکی دی ہوئی ہے، چاہے اُن میں سے کوئی بات ہم تمہیں (تمہاری زندگی میں ) دکھا دیں ، یا (اس سے پہلے) تمہاری روح قبض کر لیں ، بہر صورت ان کو آخر میں ہماری طرف ہی لوٹنا ہے، پھر (یہ تو ظاہر ہی ہے کہ) جو کچھ یہ کرتے ہیں ، اﷲ اس کا پورا پورا مشاہد ہ کر رہاہے۔ (لہٰذا وہاں ان کو سزاد ے گا)

 آیت ۴۶:  وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ:  «اور اگر ہم دکھا دیں آپ کو اس میں سے کچھ (عذاب) جس کا ہم اُن سے وعدہ کر رہے ہیں یا (اس سے پہلے ہی) ہم آپ کو وفات دے دیں»

             فَاِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیْدٌ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ:  «پس انہیں ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر اللہ گواہ ہے اُ س پرجو وہ کر رہے ہیں۔»

            یعنی آخری محاسبہ تو ان کا قیامت کے دن ہونا ہی ہے، مگر ہو سکتا ہے کہ یہاں دنیا میں بھی سزا کا کچھ حصہ ان کے لیے مختص کر دیا جائے۔ جیسا کہ بعد میں مشرکین ِمکہ پر عذاب آیا۔ ان پر آنے والے اس عذاب کا انداز پہلی قوموں کے عذاب سے مختلف تھا۔ اس عذاب کی پہلی قسط جنگ ِبدر میں ان کے ّستر سرداروں کے قتل اور ذلت آمیز شکست کی صورت میں سامنے آئی، جبکہ دوسری اور آخری قسط 9 ہجری میں وارد ہوئی جب انہیں الٹی میٹم دے دیا گیا:  فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ…  (التوبۃ:  ۲) کہ اب تمہارے لیے صرف چند ماہ کی مہلت ہے، اس میں ایمان لے آؤ ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے۔ اہل ِمکہ کے ساتھ عذاب کا معاملہ پہلی قوموں کے مقابلے میں شاید اس لیے بھی مختلف رہا کہ پہلی قوموں کی نسبت ان کے ہاں ایمان لانے والوں کی تعداد کافی بہتر رہی۔ مثلاً اگر حضرت نوح کی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ سے ۸۰ لوگ ایمان لائے (میری رائے میں وہ لوگ ۸۰ بھی نہیں تھے) تو یہاں مکہ میں حضور کی بارہ سال کی محنت کے نتیجے میں اہل ایمان کی تعداد اس سے دو گنا تھی اور ان میں حضرت ابو بکر، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت عمر اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہم جیسے بڑے بڑے لوگ بھی شامل تھے۔ 

UP
X
<>