May 18, 2024

قرآن کریم > يونس >surah 10 ayat 71

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُواْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُواْ إِلَيَّ وَلاَ تُنظِرُونِ 

اور (اے پیغمبر !) ان کے سامنے نوح کا واقعہ پڑھ کر سناؤ، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : ’’ میری قوم کے لوگو ! اگر تمہارے درمیان میرا رہنا، اور اﷲ کی آیا ت کے ذریعے خبردار کرنا تمہیں بھاری معلوم ہو رہا ہے تو میں نے اﷲ ہی پر بھروسہ کر رکھا ہے۔ اب تم اپنے شریکوں کو ساتھ ملا کر (میرے خلاف) اپنی تدبیروں کو خوب پختہ کر لو، پھر جو تدبیر تم کرو وہ تمہارے دل میں کسی گھٹن کا باعث نہ بنے، بلکہ میرے خلاف جو فیصلہ تم نے کیا ہو، اُسے (دل کھول کر) کر گذرو، اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو

            اب انباء الرسل کے سلسلے میں دو رکوع آ رہے ہیں، جن کا آغاز سورت میں ذکر ہوا تھا کہ ان میں پہلے حضرت نوح کا ذکر بہت اختصار کے ساتھ (آدھے رکوع میں) ہے اور بعد میں حضرت موسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے (ڈیڑھ رکوع میں) آیا ہے۔ درمیان میں صرف حوالہ دیا گیا ہے کہ ہم نے مختلف قوموں کی طرف رسولوں کو بھیجا، اس سلسلے میں کسی رسول کا نام نہیں لیا گیا۔

 آیت ۷۱:  وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ نُوْحٍ:  « اور ان کو سنائیے نوح کی خبر۔»

             اِذْ قَالَ لِقَوْمِہ یٰقَوْمِ اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ:  « جب اُس نے کہا اپنی قوم سے کہ اے میری قوم کے لوگو! اگر تم پر بڑا بھاری گزر رہا ہے میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی آیات کے ساتھ نصیحت کرنا»

            میرا دعوت ِحق کے ساتھ کھڑا ہونا اور تبلیغ و تذکیر کا میرا یہ عمل اگر تم پر بہت شاق گزر رہا ہے کہ تم میرا مذاق اڑاتے ہو اور مجھ پر آوازے کستے ہو تو مجھے تمہاری مخالفت کی کوئی پروا نہیں۔

             فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَکُمْ وَشُرَکَآءَکُمْ:  «تو میں نے بس اللہ پر توکل کر لیا ہے، پس تم جمع کر لو اپنے سارے ذرائع اور اپنے شریکوں کو (بھی بلا لو) »

             ثُمَّ لاَ یَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ وَلاَ تُنْظِرُوْنِ:  «پھر تم پر تمہارا معاملہ کسی اشتباہ میںنہ رہ جائے، پھر جو فیصلہ میرے بارے میں کرنا ہے کر گزرو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔»

            اس طرزِ تخاطب سے اندازہ ہو رہا ہے کہ حضرت نوح کا دل اپنی قوم کے رویے کی وجہ سے کس قدر دکھا ہوا تھا، اور ایسا ہونا بالکل فطری عمل تھا۔ اللہ کے اس بندے نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو سمجھانے اور نصیحت کرنے میں دن رات ایک کر دیاتھا، اپنا آرام و سکون تک قربان کر دیاتھا، مگر وہ قوم تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔ بہر حال ان الفاظ میں اللہ کے رسول کی طرف سے ایک آخری بات چیلنج کے انداز میں کہی جا رہی ہے کہ تم لوگ اپنی ساری قوتیں مجتمع کر لو، تمام وسائل اکٹھے کر لو اور پھر میرے ساتھ جو کر سکتے ہو کر گزرو!

UP
X
<>