May 5, 2024

قرآن کریم > هود >surah 11 ayat 35

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَاْ بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرَمُونَ 

بھلا کیا (عرب کے یہ کافر) لوگ کہتے ہیں کہ محمد (ﷺ) نے یہ قرآن اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ؟ (اے پیغمبر !) کہہ دو کہ : ’’ اگر میں نے اسے گھڑا ہوگا تو میرے جرم کا وبال مجھی پر ہوگا، اور جو جرم تم کر رہے ہو، میں اُس کا ذمہ دار نہیں ہو ں ۔ ‘‘

 آیت ۳۵:  اَمْ یَـقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَاَنَا بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ:  «کیا یہ کہتے ہیں کہ اس (محمد)  نے اس (قرآن) کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہیے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہے تو اس کا وبال مجھ ہی پر آئے گا، اور میں بری ہوں اس سے جو جرم تم کر رہے ہو۔ »

            یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو حضرت نوح کے ذکر کے درمیان آ گیا ہے۔  اس میں رسول اللہ  کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ! یہ تمام باتیں جو ہم آپ کو بذریعہ وحی بتاتے ہیں، جیسے حضرت نوح  اور آپ  کی قوم کی گفت و شنید نقل ہوئی، تو مشرکین مکہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں اور قصے آپ خود اپنی طرف سے بنا کر انہیں سناتے ہیں۔  آپ ان پر واضح کر دیں کہ میں اگر واقعی یہ جرم کر رہا ہوں تو اس کا وبال بھی مجھ ہی پر آئے گا۔  مگر آپ لوگ اس کے دوسرے پہلو پر بھی غور کریں کہ اگر یہ کلام واقعی اللہ کی طرف سے ہے تو اس کو جھٹلا کر تم لوگ جس جرم کے مرتکب ہو رہے ہو، اس کے نتائج بھی پھر تم لوگوں کو ہی بھگتنا ہیں۔  بہر حال میں علی الاعلان کہے دیتا ہوں کہ میں تمہارے اس جرم سے بالکل بری ہوں۔  اس جملہ معتر ضہ کے بعد حضرت نوح کے ذکر کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے جوڑا جا رہا ہے۔ 

UP
X
<>