May 19, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 110

حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُواْ جَاءهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاء وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ 

 (پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ان کی قوموں پر عذاب آنے میں کچھ دیر لگی) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے، اور کافر لوگ یہ سمجھنے لگے کہ انہیں جھوٹی دھمکیاں دی گئی تھیں تو ان پیغمبروں کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی، (یعنی کافروں پر عذاب آیا) اور جن کو ہم چاہتے تھے، انہیں بچالیا گیا، اور جو لوگ مجرم ہوتے ہیں ، ان سے ہمارے عذاب کو ٹالا نہیں جا سکتا

 آیت ۱۱۰:  حَتّٰیٓ اِذَا اسْتَـیْئَسَ الرُّسُلُ:  « یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہو گئے»

            یعنی متعلقہ قوم میں جس قدر فطرتِ سلیمہ کی استعداد (potential) تھی اس لحاظ سے نتائج سامنے آچکے۔ ان میں سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ ایمان لا چکے اورمزید کسی کے ایمان لانے کی توقع نہ رہی۔ بالفاظِ دیگر اِس چاٹی میں سے جس قدر مکھن نکلنا تھا نکل چکا، اب اسے مزید بلونے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔

             وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْ: « اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا»

            یہاں ظَنُّوْٓا کا فاعل متعلقہ قوم کے لوگ ہیں، یعنی اب تک جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے وہ مزید دلیر ہو گئے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ واقعی جھوٹ تھا۔ کیونکہ اگر سچ ہوتا تو اتنے عرصے سے ہمیں جو عذاب کی دھمکیاں مل رہی تھیں وہ پوری ہو جاتیں۔ ہم ایمان بھی نہیں لائے اور عذاب بھی نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کا دعویٰ اور عذاب کے یہ ڈراوے سب جھوٹ ہی تھا۔

             جَآءَہُمْ نَصْرُنَا: « تو ان کو ہماری مدد آ پہنچی»

            یعنی انبیاء و رسل کی دعوت اور حق و باطل کی کشمکش کے دوران ہمیشہ ایسا ہوا کہ جب دونوں طرف کی سوچ اپنی اپنی آخری حد تک پہنچتی (پیغمبر سمجھتے کہ اب مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا اور منکرین سمجھتے کہ اب کوئی عذاب وغیرہ نہیں آئے گا، یہ سب ڈھونگ تھا) تو عین ایسے موقع پر نبیوں اور رسولوں کے پاس ہماری طرف سے مدد پہنچ جاتی۔

             فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآءُ وَلاَ یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ: « پس بچا لیا گیا ان کو جن کو ہم نے چاہا۔اور ہمارا عذاب پھیرا نہیں جا سکتا مجرم قوم سے۔»

            یعنی اپنے انبیاء ورسل کے لیے ہماری یہ مدد منکرین حق پر عذاب کی صورت میں آتی اور اس عذاب سے جسے ہم چاہتے بچا لیتے، لیکن اس سلسلے کی اٹل حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر مجرمین پر ہمارا عذاب آ کر ہی رہتا ہے۔ اُن کی طرف سے اس کا رخ کسی طور سے موڑا نہیں جا سکتا۔

UP
X
<>