May 3, 2024

قرآن کریم > يوسف >surah 12 ayat 111

لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُوْلِي الأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ 

یقیناا ن کے واقعات میں عقل و ہوش رکھنے والوں کیلئے بڑا عبرت کا سامان ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو جھوٹ موٹ گھڑ لی گئی ہو، بلکہ اس سے پہلے جو کتابیں آچکی ہیں ، ان کی تصدیق ہے، اور ہر بات کی وضاحت، اور جولوگ ایمان لائیں ان کیلئے ہدایت اور رحمت کا سامان !

 آیت ۱۱۱:  لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِاُّولِی الْاَلْبَابِ: «یقینا ان (سابقہ اقوام) کے واقعات میں ہوش مند لوگوں کے لیے عبرت ہے۔»

             مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰـکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ:  « یہ (قرآن) ایسی بات نہیں جسے گھڑ لیا گیا ہو، بلکہ یہ تو تصدیق (کرتے ہوئے آیا) ہے اُس کی جو اس سے پہلے موجود ہے»

            یعنی یہ واقعات تورات میں بھی ہیں اور قرآن انہی واقعات کی تصدیق کررہا ہے۔ حضرت یوسف کے قصے کے سلسلے میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے بہت عمدگی کے ساتھ تورات اور قرآن کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے حسن ِبیان اور اس کے حکیمانہ انداز کا معیار اس قدر بلند ہے کہ تورات میں اس کا عشر عشیر ِبھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل تورات تو گم ہو گئی تھی۔ بعد میں حافظے کی مدد سے جو تحریریں مرتب کی گئیں، ان میں ظاہر ہے وہ معیار تو پیدا نہیں ہو سکتا تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تورات میں تھا۔

             وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ: « اور (اس میں) تفصیل ہے ہر چیز کی اور ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو (اس پر) ایمان لاتے ہیں۔»

            یعنی وہ علم جو اس دنیا میں انسان کے لیے ضروری ہے اور وہ راہنمائی جو دُنیوی زندگی میں اسے درکار ہے سب کچھ اس قرآن میں موجود ہے۔

**** بارک اللّٰہ لي ولکم في القرآن العظیم ونفعني وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم ****

UP
X
<>