May 5, 2024

قرآن کریم > الرّعد >surah 13 ayat 17

أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاء حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ 

اُسی نے آسمان سے پانی برسایا جس سے ندی نالے اپنی اپنی بساط کے مطابق بہہ پڑے، پھر پانی کے ریلے نے پھولے ہوئے جھاگ کو اُوپر اُٹھا لیا۔ اور اسی قسم کا جھاگ اس وقت بھی اُٹھتا ہے جب لوگ زیور یا برتن بنانے کیلئے دھاتوں کو آگ پر تپاتے ہیں ۔ اﷲ حق اور باطل کی مثال اسی طرح بیان کر رہا ہے کہ (دونوں قسم کا) جو جھاگ ہوتا ہے، وہ تو باہر گر کر ضائع ہو جاتا ہے، لیکن وہ چیز جو لوگوں کیلئے فائدہ مند ہوتی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اسی قسم کی تمثیلیں ہیں جو اﷲ بیان کرتا ہے

 آیت ۱۷:  اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًا فَسَالَتْ اَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا: «وہ آسمان سے پانی برساتا ہے، پھر تمام ندیاں بہنے لگتی ہیں اپنی اپنی وسعت کے مطابق»

            قرآن چونکہ حجاز میں نازل ہورہا تھا اس لیے اس میں زیادہ تر مثالیں بھی اسی سرزمین سے دی گئی ہیں۔ اس مثال میں بھی علاقہ حجاز کے پہاڑی سلسلوں اور وادیوں کا ذکر ہے، کہ جب بارش ہوتی ہے تو ہر وادی میں اُس کی وسعت کے مطابق سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی وادی کا catchment area زیادہ ہے تو وہاں زیادہ زوردار سیلاب آ جاتا ہے اور جس کا کم ہے وہاں تھوڑا سیلاب آ جاتا ہے۔

             فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا: «پھر اٹھا لاتا ہے سیلاب اُبھرتے جھاگ کو۔»

            پانی جب زور سے بہتا ہے تو ا س کے اوپر جھاگ سا بن جاتا ہے۔ لیکن اس جھاگ کی کوئی حقیقت اور وقعت نہیں ہوتی۔

             وَمِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہ: «اور جن (دھاتوں ) کو یہ لوگ آ گ پر تپاتے ہیں زیور یا دوسری چیزیں بنانے کے لیے ان پر بھی اسی طرح کا جھاگ اُبھرتا ہے۔»

             کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ: «اسی طرح اللہ حق و باطل کو ٹکراتا ہے۔»

            اس کا دوسرا ترجمہ یوں ہو گا :«اسی طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔»

             فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآءًا: «تو جو جھاگ ہے وہ خشک ہو کر زائل ہو جاتا ہے۔»

            جھاگ کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہوتی، اصل نتائج کے اعتبار سے اس کا ہونا یا نہ ہونا گویا برابر ہے۔

             وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ: «اور جو چیز لوگوں کے لیے مفید ہوتی ہے وہ ٹھہر جاتی ہے زمین میں۔»

            سیلاب کا پانی زمین میں جذب ہو کر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جبکہ جھاگ ضائع ہو جاتا ہے، اسی طرح پگھلی ہوئی دھات کے اوپر پھولا ہوا جھاگ اور میل کچیل فضول چیز ہے، اصل خالص دھات اس جھاگ کے نیچے کٹھالی کی تہہ میں موجود ہوتی ہے جس سے زیور یا کوئی دوسری قیمتی چیز بنائی جاتی ہے۔

             کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ: «اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔»

            یہ آیت کارل مارکس کے dialectical materialism کے فلسفے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اس فلسفے کا جتنا حصہ درست ہے وہ اس آیت میں موجود ہے۔ دورِ جدید کے یہ جتنے بھی نظریے (theories) ہیں ان میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ سچائی موجود ہے۔ ڈارون کا نظریۂ ارتقاء ہو یا فرائیڈ اور مارکس کے نظریات، ان میں سے کوئی بھی سو فیصد غلط نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان نظریات میں غلط اور درست خیالات گڈ مڈ ہیں۔ جہاں تک مارکس کے نظریہ جدلیاتی مادیت (dialectical materialism ) کا تعلق ہے اس کے مطابق کسی معاشرے میں ایک خیال یا نظریہ جنم لیتا ہے جس کوthesis کہا جاتاہے۔ اس کے ردِّعمل کے طور پر اینٹی تھیسس (antithesis) وجود میں آتا ہے۔ پھر یہ تھیسس اور اینٹی تھیسس ٹکراتے ہیں اور ان کے ٹکرانے سے ایک نئی شکل پیدا ہو تی ہے جسے سِن تھیسس (synthesis) کہا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ اس نظریہ کی بہتر شکل ہوتی ہے مگر یہ بھی اپنی جگہ کامل نہیں ہوتی، اس کے اندر بھی نقائص موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ اِسی سن تھیسس کی کوکھ سے ایک اور اینٹی تھیسس جنم لیتا ہے۔ ان کا پھر آپس میں اسی طرح ٹکراؤ ہوتا ہے اور پھر ایک نیا سن تھیسس وجود میں آتا ہے۔ یہ عمل (process) اسی طرح بتدریج آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس تصادم میں جو چیز فضول، غلط اور بیکارہوتی ہے وہ ضائع ہوتی رہتی ہے، مگر جو علم اور خیال معاشرے اور نسل انسانی کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔

            دورِ جدید کے بیشتر نظریے (theories) ایسے لوگوں کی تخلیق ہیں جن کے علم اور سوچ کا انحصار کلی طور پر مادے پر تھا۔ یہ لوگ روح اور اس کی حقیقت سے بالکل نابلد تھے۔ بنیادی طور پر یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں کے اخذ کردہ نتائج اکثر و بیشتر غلط اور گمراہ کن تھے۔ بہر حال اس سارے عمل (process) میں غلط اور باطل خیالات و مفروضات خود بخود چھٹتے رہتے ہیں اور نسل انسانی کے لیے مفید علوم کی تطہیر (purification) ہوتی رہتی ہے۔ سورۃ الانبیاء کی (آیت: ۱۸) میں یہ حقیقت اس طرح واضح کی گئی ہے: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ.  «ہم دے مارتے ہیں حق کو باطل پر، تو وہ باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے، پھر وہ (باطل) غائب ہو جاتا ہے»۔ حق و باطل اور خیر و شر کی اس کش مکش کے ذریعے سے گویا نسل ِانسانی تدریجاً تمدن اور ارتقاء کے مراحل طے کر تے ہوئے رفتہ رفتہ بہتری کی طرف آ رہی ہے۔

            علامہ اقبال کے مطابق نسل ِانسانی کے لیے کامل بہتری یا حتمی کامیابی اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کی تعمیل میں پوشیدہ ہے جس کا کامل عملی نمونہ اس دنیا میں پندرہ سو سال پہلے نبی آخر الزماں نے پیش کیا تھا۔ ارتقاءِ فکر انسانی کے سفر کے نام پر انسانی تمدن کے چھوٹے بڑے تمام قافلے شعوری یا غیر شعوری طور پر اسی مینارۂ نور (light house) کی طرف رواں دواں ہیں۔ اگر کسی ماحول میں روشنی کی کوئی کرن اجالا بکھیرتی نظر آتی ہے تو وہ اسی منبع نور کی مرہونِ منت ہے۔ اور اگر کسی ماحول کے حصے کی تاریکیاں ابھی تک گہری ہیں تو جان لیجئے کہ وہ اپنی اس فطری اور حتمی منزل سے ہنوز دور ہے۔ اس سلسلے میں اقبالؔ کے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں:

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو

زانکہ از خاکش بروید آرزو

یا زنورِ مصطفٰے اورا بہاست

یا ہنوزاندر تلاش مصطفیٰ است

UP
X
<>