May 3, 2024

قرآن کریم > الحجر >surah 15 ayat 85

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ 

اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اُس کو کسی برحق مقصد کے بغیر پیدا نہیں کیا۔ اور قیامت کی گھڑی آکر رہے گی۔ لہٰذا (اے پیغمبر ! ان کافروں کے طرزِ عمل پر) خوبصورتی کے ساتھ درگذر سے کام لو

 آیت ۸۵:  وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلاَّ بِالْحَقِّ: «اور ہم نے نہیں تخلیق کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے مگر حق کے ساتھ۔»

            یہ کائنات ایک با مقصد تخلیق ہے، کوئی کھیل تماشا نہیں۔ ہندو مائتھالوجی کی طرز پر یہ کوئی رام کی لیلا نہیں ہے کہ رام جی جس کو چاہیں راجہ بنا کر تخت پر بٹھا دیں اور جسے چاہیں تخت سے نیچے پٹخ دیں، بلکہ یہ کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تخلیق با معنی اور با مقصد ہے۔اس حقیقت کو سوره آل عمران میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاًج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ: «اے ہمارے رب! تو نے یہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی، تیری ذات اس سے بہت اعلیٰ اور پاک ہے، لہٰذا ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔»

             وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ: «اور یقینا قیامت آ کر رہے گی»

            چونکہ یہ کائنات اور اس کی ہر چیز حق کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے، لہٰذا اس حق کا منطقی تقاضا ہے کہ ایک یومِ حساب آئے، لہٰذا قیامت آ کر رہے گی۔اس کائنات کا بغور جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو منطقی سوال اٹھتا ہے کہ پھر انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے ؟اور انسان کے اندر جو اخلاقی حس پیدا کی گئی ہے، اسے پیدائشی طور پر نیکی اور بدی کی جو تمیز دی گئی ہے یہاں دنیا میں اس سے کیا نتائج بر آمد ہو رہے ہیں ؟ اس دنیا میں تو اخلاقیات کے اصولوں کے برعکس نتائج سامنے آتے ہیں۔یہاں چور ڈاکو اور لٹیرے عیش کرتے نظر آتے ہیں اور نیک سیرت لوگ فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا اس صورتِ حال کا منطقی تقاضا ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہو جس میں ہر شخص کا پورا پورا حساب ہو اور ہر شخص کو ایسا صلہ اور بدلہ ملے جو اس کے اعمال کے عین مطابق ہو۔

             فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ: «تو (اے نبی !) آپ ان سے خوبصورتی کے ساتھ در گزرکریں۔»

            یہ مجرم لوگ ہماری پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ قیامت آئے گی اور یہ لوگ ضرور کیفر کردار کو پہنچیں گے، مگر ابھی ہم انہیں ڈھیل دینا چاہتے ہیں، مزید کچھ دیر کے لیے مہلت دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ فی الحال ان کی دل آزار باتیں برداشت کریں، ان کی معاندانہ سرگرمیوں کے جواب میں صبر کریں اور احسن انداز میں اس سب کچھ کو نظر انداز کر دیں۔ اس ّرویے اور ایسے طرزِ عمل سے آپ کے درجات بلند ہوں گے۔

UP
X
<>