May 5, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 125

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ

اپنے رَبّ کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اُسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ یقینا تمہارا پروردگار اُن لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اُس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں ، اور اُن سے بھی خوب واقف ہے جو راہِ راست پر قائم ہیں

 آیت ۱۲۵:  اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ:  «آپ دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ»

            یہ دعوت الی الحق کا طریقہ اور اس کے آداب کا ذکر ہے، جیسا کہ سوره یوسف (آیت: ۱۰۸) میں فرمایا گیا:  قُلْ ہٰذِہ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ.  «(اے نبی!) آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ، میں خود بھی اور میرے پیروکار بھی (اس راستے پر گامزن ہیں)۔»

             وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ:  «اور ان سے بحث کیجیے بہت اچھے طریقے سے۔»

             اِنَّ رَبَّکَ ہُو اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہ وَہُواَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ:  «یقیناآپ کا رب خوب واقف ہے اُن سے جو اُس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں اور وہ خوب جانتا ہے اُن کو بھی جو راہِ ہدایت پر ہیں۔»

            اپنے موضوع کے حوالے سے یہ بہت عظیم آیت ہے۔ اس میں انسانی معاشرے کے اندر انسانوں کی تین بنیادی اقسام کے حوالے سے دعوتِ دین کے تین مدارج بیان کیے گئے ہیں، مگر عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اور تشریح کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔

            کسی بھی معاشرے میں علم ودانش کی بلند ترین سطح پر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس معاشرے کا دانشور طبقہ (intelligentsia) یا ذہین اقلیت (intellectual minority) کہا جاتا ہے۔ اس طبقے کی حیثیت اس معاشرے یا قوم کے دماغ کی سی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے بہت چھوٹی اقلیت پر مشتمل ہوتے ہیں مگر کسی معاشرے کی مجموعی سوچ اور اس کے مزاج کا رخ متعین کرنے میں اُن کا کردار یا حصہ فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جذباتی تقاریر اور خوش کن وعظ متاثر نہیں کر سکتے، بلکہ ایسے لوگ کسی سوچ یا نظریے کو قبول کرتے ہیں تو مصدقہ علمی ومنطقی دلیل سے قبول کرتے ہیں اور اگر رد کرتے ہیں تو ایسی ہی ٹھوس دلیل سے رد کرتے ہیں۔

            آیت زیر نظر میں بیان کردہ پہلا درجہ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے اور وہ ہے «حکمت»۔ یہ علم وعقل کی پختگی کی بہت اعلیٰ سطح ہے۔ سورۃ البقرۃ کی (آیت: ۲۶۹) میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کو(خیر کثیر) قرار دیا ہے:  وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا۔ قرآن میں تین مقامات (البقرۃ: ۱۲۹، آل عمران: ۱۶۴ اور الجمعہ: ۲) پر اِن مراحل اور درجات کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تحت حضور نے اپنے صحابہ کی تربیت فرمائی۔ ان میں بلند ترین مرحلہ یا درجہ حکمت کا ہے۔ حکمت کے سبب کسی انسان کی سوچ اور علم میں پختگی آتی ہے، اس کی گفتگو میں جامعیت پیدا ہوتی ہے اور اس کی تجزیاتی اہلیت بہتر ہو جاتی ہے۔ اس طرح وہ کسی سے بات کرتے ہوئے یا کسی کو دین کی دعوت دیتے ہوئے معروضی صورتِ حال، مخاطب کے ذہنی رجحان اور ترجیحات کا درست تجزیہ کرنے کے بعد اپنی گفتگو کے نکات اور دلائل کو ترتیب دیتا ہے۔ اسے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ کس وقت اسے کیا پیش کرنا ہے اور کس انداز میں پیش کرنا ہے۔ کون سا نکتہ بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے اور کون سی دلیل ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ بہر حال کسی بھی معاشرے کے وہ لوگ جو علم، عقل اور شعور میں غیر معمولی اہلیت کے حامل ہوں، اُن کو دعوت دینے کے لیے بھی کسی ایسے داعی کی ضرورت ہے جو خود بھی علم وحکمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو اور ان سے برابری کی سطح پر کھڑے ہو کر بات کر سکے۔ کیونکہ جب قرآن اپنے مخالفین کو چیلنج کرتا ہے:  ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ.  (البقرۃ) «اپنی دلیل لاؤ اگر تم واقعی سچے ہو»۔ تو ایسی صورت میں ہمارے مخالفین کو بھی حق ہے کہ وہ بھی ہم سے دلیل مانگیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم عقل اور منطق کی اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر ان کی تسلی وتشفی کا سامان فراہم کریں۔ لہٰذا آیت زیر نظر میں دعوت وتبلیغ کا پہلا درجہ حکمت بیان کیا گیا ہے جس کا حق ادا کرنے کے لیے داعی کا صاحب ِحکمت اور حکیم ہونا لازمی ہے۔

            حکمت کے بعد دوسرا درجہ «موعظہ ٔحسنہ» کا ہے، یعنی اچھا خوبصورت وعظ۔ یہ درجہ عوام الناس کے لیے ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے ذہنوں میں عقل اور منطق کی چھلنیاں نہیں لگی ہوتیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے لیے منطقی مباحث اور فلسفیانہ تقاریر «تکلیف ما لا یطاق» کے مترادف ہیں۔ ان کے دل کھلی کتاب اور ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں، آپ ان پر جو لکھنا چاہیں لکھ لیں۔ ایسے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ان کے جذبات کو اپیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پر تاثیر وعظ اور خلوص وہمدردی سے کی گئی بات سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ ان کو احساس ہو جاتا ہے کہ داعی ہم پر اپنے علم کا رعب نہیں ڈالنا چاہتا، ہم پر دھونس نہیں جمانا چاہتا، وہ ہم سے اظہارِنفرت نہیں کر رہا، ہماری تحقیر نہیں کر رہا، بلکہ اس کے پیش نظر ہماری خیر خواہی ہے۔ چنانچہ داعی کے دل سے نکلی ہوئی بات «از دل خیزد، بردل ریزد» کے مصداق سیدھی ان کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔

            دعوتِ حق کا تیسرا درجہ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَن:  اُن عناصر کے لیے ہے جو کسی معاشرے میں خلق خدا کو گمراہ کرنے کے مشن کے علم بردار ہوتے ہیں۔ آج کل بہت سی تنظیموں کی طرف سے باقاعدہ پیشہ وارانہ تربیت سے ایسے لوگ تیار کر کے میدان میں اتارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خلوص واخلاص سے کی گئی بات کو کسی قیمت پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہر حال میں اپنے نظریے اور موقف کی طرف داری کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے، چاہے وہ کسی علمی وعقلی دلیل سے ہو یا ہٹ دھرمی سے۔ ایسے لوگوں کو مسکت ِجواب دے کر لاجواب کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ بعض اوقات عوامی سطح کے اجتماعات میں اُن کی بحث برائے بحث کی پالیسی بہت خطرناک ہو سکتی ہے، جس سے عوام الناس کے ذہن منفی طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بحث ومباحثہ کے عمل کو ہمارے ہاں «مناظرہ» کہا جاتا ہے، جبکہ قرآن نے اسے «مجادلہ» کہا ہے۔ بہرحال قرآن نے اپنے پیروکاروں کے لیے اس میں بھی اعلیٰ معیار مقرر کر دیا ہے کہ مخالفین سے مجادلہ بھی ہو تو احسن انداز میں ہو۔ اگر آپ کا مخالف کسی طور سے گھٹیا پن کا مظاہرہ بھی کرے تب بھی آپ کو جواب میں اچھے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں، جیسا کہ سورۃ الانعام کی آیت: ۱۰۸ میں حکم دیا گیا:  وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ:  « اور جن کو یہ (مشرک) اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کہ کہیں یہ بھی بغیر سوچے سمجھے مخالفت میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگ جائیں»۔ آج کل مختلف مذاہب کی تنظیمیں مثلاً عیسائی مشنریز باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسلام کو ہدف بنانے کے لیے کچھ خاص موضوعات اور مسائل کو ایک مخصوص انداز میں پیش کرتی ہیں۔ یہ لوگ ایسے موضوعات ومسائل پر مناظرے کرنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کے ذریعے سپیشلسٹ (specialist) تیار کرتے ہیں۔ ایسے پیشہ وارانہ لوگوں کے مقابلے اور مجادلے کے لیے داعیانِ حق کو خصوصی تعلیم وتربیت دینے کی ضرورت ہے۔ 

UP
X
<>