April 29, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 22

إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ 

تمہارا معبود تو بس ایک ہی خدا ہے۔ لہٰذا جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اُن کے دل میں انکار پیوست ہوگیا ہے، اور وہ گھمنڈ میں مبتلا ہیں

 آیت ۲۲:  اِلٰہُکُمْ اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ:  «تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔»

             فَالَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ قُلُوْبُہُمْ مُّنْکِرَۃٌ وَّہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ:  «تووہ لوگ جوآخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے دل منکر ہیں اور وہ تکبر کرتے ہیں۔»

            اس نکتے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں آخرت کا یقین نہیں ہے وہ حق بات کو قبول کرنے سے کیوں جھجکتے ہیں اور ان کے اندر استکبار کیوں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا فلسفہ یہ ہے کہ جو شخص فطرتِ سلیمہ کا مالک ہے اس کے اندر اچھائی اور برائی کی تمیز موجود ہوتی ہے۔ اس کا دل اس حقیقت کا قائل ہوتا ہے کہ اچھائی کا اچھا بدلہ ملنا چاہیے اور برائی کا برا ع:   «گندم از گندم  بروید، جو زجو!»

            یہی فلسفہ یا تصور منطقی طور پر ایمان بالآخرت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مگر دنیا میں جب پوری طرح نیکی کی جزا اور برائی کی سزا ملتی ہوئی نظر نہیں آتی تو ایک صاحب شعور انسان لازماً سوچتا ہے کہ اعمال اور اس کے نتائج کے اعتبار سے دنیوی زندگی ادھوری ہے اور اس دنیا میں انصاف کی فراہمی کماحقہ ممکن ہی نہیں۔ مثلاً اگر ایک ستر سالہ بوڑھا ایک نوجوان کو قتل کر دے تو اس دنیا کا قانون اسے کیا سزا دے گا؟ ویسے تو یہاں انصاف تک پہنچنے کے لیے بہت سے کٹھن مراحل طے کرنے پڑتے ہیں، لیکن اگر یہ تمام مراحل طے کر کے انصاف مل بھی جائے تو قانون زیادہ سے زیادہ اس بوڑھے کو پھانسی پر لٹکا دے گا۔ لیکن کیا اس بوڑھے کی جان واقعی اس نوجوان مقتول کی جان کے برابر ہے؟ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ نوجوان تو اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوئے، ایک نوجوان عورت بیوہ ہوئی، خاندان کا معاشی سہارا چھن گیا۔ اس طرح اس کے لواحقین اور خاندان کے لیے اس قتل کے اثرات کتنے گھمبیر ہوں گے اور کہاں کہاں تک پہنچیں گے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دوسری طرف وہ بوڑھا شخص جو اپنی طبعی عمر گزار چکا تھا، جس کے بچے خود مختار زندگیاں گزار رہے ہیں، جس کی کوئی معاشی ذمہ داری بھی نہیں ہے، اس کے پھانسی پرچڑھ جانے سے اس کے پس ماندگان پر ویسے اثرات مرتب نہیں ہوں گے جیسے اس نوجوان کی جان جانے سے اس کے پس ماندگان پر ہوئے تھے۔ ایسی صورت میں دنیا کا کوئی قانون مظلوم کو پورا پورا بدلہ دے ہی نہیں سکتا۔ ایسی مثالیں عقلی اور منطقی طور پر ثابت کرتی ہیں کہ یہ دُنیا نا مکمل ہے۔ اس دنیا کے معاملات اور افعال کا ادھورا پن ایک دوسری دنیا کا تقاضا کرتا ہے جس میں اس دنیا کے تشنہ تکمیل رہ جانے والے معاملات پورے انصاف کے ساتھ اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔ اب ایک ایسا شخص جو فطرتِ سلیمہ کا مالک ہے، اس کے شعور میں نیکی اور بدی کا ایک واضح اور غیر مبہم تصور موجود ہے، وہ لازمی طور پر آخرت کے بارے میں مذکورہ منطقی نتیجے پر پہنچے گا اور پھر وہ قرآن کے تصور آخرت کوقبول کرنے میں بھی پس وپیش نہیں کرے گا، مگر اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جس کے شعور میں نیکی اور بدی کا واضح تصور موجود نہیں، وہ قرآن کے تصورِ آخرت پر بھی دل سے یقین نہیں رکھتا اورفکر ِآخرت سے بے نیاز ہو کر غرور اور تکبر میں بھی مبتلا ہو چکا ہے، اُس کا دل پیغامِ حق کوقبول کرنے سے بھی منکر ہو گا۔ ایسے شخص کے سامنے حکیمانہ درس اور عالمانہ وعظ سب بے اثر ثابت ہوں گے۔ 

UP
X
<>