May 15, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 65

وَاللَّهُ أَنزَلَ مِنَ الْسَّمَاء مَاء فَأَحْيَا بِهِ الأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ 

اور اﷲ نے آسمان سے پانی برسایا، اور زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اُس میں جان ڈال دی۔ یقینا اِ س میں اُن لوگوں کیلئے نشانی ہے جو بات سنتے ہیں

 آیت ۶۵:  وَاللّٰہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَـآءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا:  «اوراللہ ہی نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس سے زندہ کر دیا زمین کو اُس کے مردہ ہو جانے کے بعد۔»

             اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ:  « یقینا اس میں نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو سنتے ہوں۔»

            یہ نشانی ان لوگوں کے لیے ہے جن کا سننا حیوانوں کا سا سننا نہ ہو، بلکہ انسانوں کا سا سننا ہو۔ علامہ اقبال نے «زبور عجم» میں کیا خوب کہا ہے:        

دم چیست؟ پیام است،  شنیدی، نشنیدی!

در خاکِ تو یک جلوه عام است ندیدی؟

دیدن دگر آموز!     شنیدن دگر آموز!

یعنی سانس جو تم لیتے ہو یہ بھی اللہ کا ایک پیغام ہے، یہ الگ بات ہے کہ تم اس پیغام کو سنتے ہو یا نہیں سنتے ہو۔ یہ درست ہے کہ تم خاک سے بنے ہو، مگر تمہارے اسی خاکی وجود کے اندر ایک نور اور جلوۂ ربانی بھی موجود ہے۔ یہ روح ربانی جو تمہارے وجود میں پھونکی گئی ہے یہ جلوہ ربانی ہی تو ہے، جسے تم دیکھتے ہی نہیں ہو۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ تمہارے اندر کیا کیا کچھ موجود ہے:  وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ:  (الذاریات) «اورتمہارے اندر (کیا کچھ ہے)، کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟» ذرا دوسری طرح کا دیکھنا اور دوسری طرح کا سننا سیکھو! ایسا دیکھنا سیکھو جو چیزوں کی اصلیت کو دیکھ سکے اور ایسا سننے کی صلاحیت حاصل کروجس سے تمہیں حقیقت کی پہچان نصیب ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ دیکھنا اور یہ سننا محض حیوانوں کا سا دیکھنا اور سننا ہے۔

اے اہل ِنظر   ذوق ِنظر   خوب ہے   لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!

            اس سورۃ میں تکرار کے ساتھ اہل ِفکر ودانش کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر، سن کراور سمجھ کر سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ( آیت ِزیر نظر کے علاوہ ملاحظہ ہوں آیات: ۱۱، ۱۲، ۶۷، ۶۹ اور ۷۹) 

UP
X
<>