May 19, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 13

وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَآئِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا 

اور ہر شخص (کے عمل) کا انجام ہم نے اُس کے اپنے گلے سے چمٹا دیا ہے، اور قیامت کے دن ہم (اُس کا) اعمال نامہ ایک تحریر کی شکل میں نکال کر اُس کے سامنے کریں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا

 آیت ۱۳:  وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہُ فِیْ عُنُقِہِ:   «اور ہر انسان کی قسمت چپکا دی ہے ہم نے اس کی گردن میں۔»

            «طائِر» کا لفظ عربی میں عام طور پر شگون، نحوست اور بد قسمتی کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن یہاں پر خوش بختی اور بد بختی دونوں ہی مراد ہیں۔  یعنی کسی انسان کا جو بھی مقسوم و مقدور ہے، زندگی میں اچھا برا جو کچھ بھی اسے ملنا ہے، جیسے بھی اچھے برے حالات اسے پیش آنے ہیں، اس سب کچھ کے بارے میں اس کا جو کھاتہ «اُمّ الکتاب» میں موجود ہے اس کا حاصل اس کی گردن میں چپکا دیا گیا ہے۔  گردن میں چپکانے کے الفاظ کا استعمال محاورۃً بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی کچھ مادی حقیقت بھی ہو۔  یعنی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی گردن میں کسی gland کی صورت میں واقعی کوئی مائیکرو کمپیوٹر نصب کر رکھا ہو۔  واللہ اعلم!

              وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا:   «اور ہم نکال لیں گے اس کے لیے قیامت کے روز  (اسے) ایک کتاب (کی شکل میں)، وہ پائے گا اسے کھلی ہوئی۔»

            ان الفاظ سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ انسانی جسم کے اندر ہی کوئی ایسا سسٹم لگا دیا گیا ہے جس میں اس کے تمام اعمال و افعال ریکارڈ ہو رہے ہیں اور قیامت کے دن ایک chip کی شکل میں اسے اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔  اس chip کے اندر اس کی زندگی کی ساری فلم موجود ہو گی، ایک ایک حرکت جو اُس نے کی ہوگی، ایک ایک لفظ جو اس نے منہ سے نکالا ہو گا، ایک ایک خیال جو اس کے ذہن میں پیدا ہوا ہو گا، ایک ایک نیت جو اس کے دل میں پروان چڑھی ہو گی، سب ڈیٹا پوری تفصیل کے ساتھ اس میں محفوظ ہو گا۔ روز قیامت اس chip کو کھول کر کھلی کتاب کی طرح اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور کہا جائے گا:

UP
X
<>