May 16, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 53

وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا

میرے (مومن) بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہا کریں جو بہترین ہو۔ درحقیقت شیطان لوگوں کے درمیان فساڈالتا ہے۔ شیطان یقینی طور پر انسان کا کھلا دُشمن ہے

 آیت ۵۳:  وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ:   «اور آپ میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہی بات کہیں جو بہت اچھی ہو۔»

            یہاں وہ نکتہ ذہن میں تازہ کر لیجیے جس کی قبل ازیں وضاحت ہو چکی ہے کہ مکی سورتوں میں اہل ایمان کو براہِ راست مخاطب نہیں کیا گیا۔  اُن سے براہِ راست تخاطب کا سلسلہ  (یٰٓــاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا)  تحویل قبلہ کے بعد شروع ہوا، جب انہیں باقاعدہ اُمت ِمسلمہ کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔  اس سے پہلے اہل ایمان کو رسول اللہ کی وساطت سے ہی مخاطب کیا جاتا رہا۔  چنانچہ اسی اصول کے تحت یہاں بھی حضور سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ میرے بندوں (مؤمنین) کو میری طرف سے یہ بتا دیں کہ وہ ہر حال میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں اور گفتگو میں کبھی ترشی اور تلخی نہ آنے دیں۔  اس طرح آپس میں بھی شیر و شکر بن کر رہیں اور مخالفین کے سامنے بھی بہتر اخلاق کا نمونہ پیش کریں --- اقامت ِدین کے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے مؤمنین کے سامنے بہت زیادہ رکاوٹیں ہیں۔  ان کے مخاطبین جہالت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔  ان کے جاہلانہ اعتقادات نسلوں سے چلے آ رہے ہیں۔  اسی طرح انہیں اپنے رسم و رواج، سیاسی و معاشی مفادات اورغیرت و حمیت کے جذبات بہت عزیز ہیں۔  انہیں اس سب کچھ کا دفاع کرنا ہے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی قربانیاں دینے کو تیار ہیں۔  ان حالات میں داعیانِ حق کو تحمل، بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔  ایسا نہ ہو کہ وہ اشتعال میں آ کر اعلیٰ اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھیں۔  

              اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَہُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا:   «یقینا شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالے گا۔ یقینا شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔» 

UP
X
<>