May 16, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 55

وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّنَ عَلٰي بَعْضٍ وَّاٰتَيْنَا دَاوُدَ زَبُوْرًا 

اور تمہارا پروردگار اُن سب کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں ، اور جو زمین میں ہیں ۔ اور ہم نے کچھ نبیوں کو دوسرے نبیوں پر فضیلت دی ہے، اور ہم نے داود کو زبور عطا کی تھی

 آیت ۵۵:  وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ:   «اور آپ کا رب خوب جانتا ہے اس کو جو کوئی ہے آسمانوں اور زمین میں۔»

              وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِینَ عَلٰی بَعْض:   «اور ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت بخشی ہے»

            یہاں اس فقرے کے سیاق و سباق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔  سوره بنی اسرائیل مکی دور کے آخری برسوں میں نازل ہوئی اور اس کا آغاز بھی بنی اسرائیل کی تاریخ سے ہوا۔  اس سورۃ کے نزول سے پہلے نبی آخرالزماں کی بعثت اور قرآن کے بارے میں تمام خبریں مدینہ پہنچ چکی تھیں اور یہودِ مدینہ ایک ایک بات اور ایک ایک خبر کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے۔  پھر عنقریب حضور خود بھی مدینہ تشریف لانے والے تھے۔  ان حالات میں جب مسلمانوں کا یہودیوں کے ساتھ عقائد و نظریات کے بارے میں تبادلہ خیالات ہونا تھا تو انبیاء کرام کے فضائل کے بارے میں سوالات کا اٹھنا ناگزیر تھا، کہ اگر محمد نبی ہیں تو آپ اور موسیٰ میں سے افضل کون ہیں؟ یا یہ مسئلہ کہ محمد افضل ہیں یا عیسیٰ؟ چنانچہ اس حوالے سے یہاں ایک بنیادی اور اصولی بات بیان فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان میں موجود اپنی تمام مخلوق کے احوال و کیفیات سے خوب واقف ہے اوراس نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے۔  سورۃ البقرۃ کی آیت: ۲۵۳ میں یہی بات یوں بیان فرمائی گئی ہے:  تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ :   «یہ رسول ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے»۔  ایسا نہ ہو کہ اس بحث میں پڑ کر آپ لوگ اپنے نبی کی فضیلت اس طرح بیان کریں کہ مخالفین کے منفی جذبات کو ہوا ملے اور وہ تعصب سے مغلوب ہو کر آپ کی بات ہی سننے سے انکار کر دیں۔

            یہ بہت نازک مسئلہ ہے اور اس کی نزاکت کو سمجھنے کی ضرور ت ہے۔  ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی تمام انبیاء کرام سے افضل ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ سب سے افضل ہیں،  مگر موقع و محل دیکھے بغیر اپنے اس عقیدے کا اس طرح سے چرچا کرنا درست نہیں کہ اس سے دوسرے مشتعل ہوں اور ان کے مخالفانہ جذبات و خیالات کو انگیخت ملے۔  اس ضمن میں حضور کی واضح حدیث ہے کہ «لَا تُفَضِّلُوْا بَیْنَ اَنْبِیَاءَ اللّٰہِ» «اللہ کے نبیوں کے مابین درجہ بندی نہ کیا کرو»۔ آپ نے مزید فرمایا:  «لاَ یَنْبَغِیْْ لِعَبْدٍ اَنْ یَـقُوْلَ اَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی»  «کسی شخص کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں (محمد)  یونس بن متی ٰسے افضل ہوں»۔ آپ نے یہاں حضرت یونس کا ذکر شاید اس لیے فرمایا کہ حضرت یونس واحد نبی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ گرفت ہوئی ہے۔  بہر حال آپ نے واضح طور پر اس سے منع فرمایا ہے کہ دوسرے انبیاء پر آپ کی فضیلت کا پرچار کیا جائے۔  

              وَّاٰتَیْنَا دَاوُدَ زَبُوْرًا:   «اور ہم نے داؤد  کو زبور عطا کی تھی۔»

            اسی سیاق و سباق کی مناسبت سے یہاں بنی اسرائیل کے ایک نبی کا تذکرہ فرما دیا اور آپ کی فضیلت بھی بیان فرما دی کہ حضرت داؤد کو ہم نے زبور جیسی جلیل القدر کتاب عطا فرمائی تھی۔  یہاں پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ موقع و محل کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء ورسل کے فضائل اور اعلیٰ مراتب کے ذکر سے ان کی عزت افزائی کرتا ہے۔ 

UP
X
<>