May 16, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 57

أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا 

جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ تو خود اپنے پروردگار تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ اُن میں سے کون اﷲ کے زیادہ قریب ہو جائے، اور وہ اُس کی رحم ت کے امیدوار رہتے ہیں ، اور اُس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یقینا تمہارے رَبّ کا عذاب ہے ہی ایسی چیز جس سے ڈرا جائے

 آیت ۵۷:  اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَ یُّہُمْ اَقْرَب:   «وہ لوگ جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے قرب کے متلاشی ہیں کہ ان میں سے کون (اُس کے) زیادہ قریب ہے»

             لفظ «وسیلہ» بمعنی قرب اس سے پہلے ہم سورۃ المائدۃ  (آیت: ۳۵)  میں پڑھ چکے ہیں۔  مراد یہ ہے کہ جس طرح اس دنیا میں اللہ کے بندے اللہ کے ہاں اپنے درجات بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں اسی طرح عالم غیب یا عالم امر میں بھی تقرب الی اللہ کی یہ درجہ بندی موجود ہے۔  جیسے فرشتوں میں طبقہ ٔاسفل کے فرشتے، پھر درجہ اعلیٰ کے فرشتے اور پھر ملائکہ مقربین ہیں۔

            اللہ کی شریک ٹھہرائی جانے والی شخصیات میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو بالکل خیالی ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن ان کے علاوہ ہر زمانے میں لوگ انبیاء، اولیاء اللہ اور فرشتوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک سمجھتے رہے ہیں۔  ایسی ہی شخصیات کے بارے میں یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ چاہے انبیاء و رسل ہوں، یا اولیاء اللہ، یا فرشتے، وہ تو عالم امر میں خود اللہ کی رضا جوئی کے لیے کوشاں اور اس کے قرب کے متلاشی ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم میں متعدد بار ذکر ہوا ہے کہ ایسی تمام شخصیات جنہیں دنیا میں مختلف انداز میں اللہ کے سوا پکارا جاتا تھا قیامت کے دن اپنے عقیدت مندوں کے مشرکانہ نظریات سے اظہارِ بیزاری کریں گی اور صاف کہہ دیں گی کہ اگر یہ لوگ ہمارے پیچھے ہمیں اللہ کا شریک ٹھہراتے رہے تھے تو ہمیں اس بارے میں کچھ خبر نہیں۔  

              وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہُ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہُ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا:   «اور وہ امیدوار ہیں اُس کی رحمت کے اور ڈرتے رہتے ہیں اُس کے عذاب سے۔ واقعتا آپ کے رب کا عذاب چیز ہی ڈرنے کی ہے۔» 

UP
X
<>