May 19, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 85

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً 

اور (اے پیغمبر !) یہ لوگ تم سے رُوح کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو کہ : ’’ رُوح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے۔ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے، وہ بس تھوڑا ہی سا علم ہے۔‘‘

 آیت ۸۵:  وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ:   «اور (اے نبی!) یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔»

              قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً:   «آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں نہیں دیا گیا علم مگر تھوڑا سا۔»

            روح کے بارے میں یہ سوال ان تین سوالات میں سے تھا جو ایک مرتبہ مدینہ کے یہودیوں نے قریش مکہ کے ذریعے رسول اللہ سے پوچھ بھیجے تھے۔  ان میں سے ایک سوال اصحاب کہف کے بارے میں تھا اور دوسرا ذو القرنین کے بارے میں۔  ان دونوں سوالات کے تفصیلی جوابات سورۃ الکہف میں دیے گیے ہیں، مگر روح کے متعلق سوال کا انتہائی مختصر جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔

            اس بارے میں یہاں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے اور عالم امر چونکہ عالم غیب ہے اس لیے اس کے بارے میں تم لوگ کچھ نہیں جان سکتے۔  انسان کے علم کا ذریعہ اس کے حواس ہیں اور اپنے ان حواس کے ذریعے وہ صرف عالم خلق کی چیزوں کے بارے میں جان سکتا ہے، عالم غیب (عالم امر) تک اس کا علم رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔  چنانچہ عالم غیب کی باتوں کو اسے ویسے ہی ماننا ہو گا جیسے قرآن اور رسول کے ذریعے سے بتائی گئی ہوں۔  اسی کا نام ایمان بالغیب ہے، جس کا ذکر قرآن مجید کے آغاز میں ہی کر دیا گیا ہے:   الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ: (البقرۃ)۔  قبل ازیں سورۃ الاعراف کی  آیت: ۵۴ اور سورۃ النحل کی  آیت: ۴۰ کی تشریح کے ضمن میں عالم ِخلق اور عالم امر کے بارے میں تفصیلی بحث کی جا چکی ہے۔  وہاں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ فرشتوں، انسانی ارواح اور وحی کا تعلق عالم امر سے ہے۔  

UP
X
<>