May 19, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 84

قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلاً 

کہہ دو کہ : ’’ ہر شخص اپنے اپنے طریقے پر کام کر رہا ہے۔ اب اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ صحیح راستہ پر ہے۔‘‘

 آیت ۸۴:  قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہِ:   «آپ کہہ دیجئے کہ ہر شخص کام کرتا ہے اپنے شاکلہ کے مطابق۔»

            «شاکلہ» سے مراد ہر انسان کی شخصیت کا مخصوص سانچہ ہے، جیسے آپ کو کسی دھات سے کوئی شے بنانی ہے تو پہلے اس کا ایک سانچہ (pattern) بناتے ہیں اور اس دھات کو پگھلا کر اس میں ڈال دیتے ہیں تو وہ دھات وہی مخصوص شکل اختیار کر لیتی ہے۔  انسانی شخصیت کے مخصوص سانچے کی تشکیل میں انسان کے موروثی genes اور اس کا خارجی ماحول بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا موروثی عوامل اور ماحولیاتی عوامل کے حاصل ضرب سے انسان کی شخصیت کا جو ہیولیٰ بنتا ہے وہی اس کا شاکلہ ہے۔  کسی شخص نے نیکی اور برائی کے لیے جو بھی محنت اور کوشش کرنی ہے وہ اپنے اس شاکلہ کے اندر رہ کر ہی کرنی ہے۔  گویا کسی انسان کا شاکلہ اس کے دائرہ عمل کی حدود کا تعین کرتا ہے۔  وہ نہ تو ان حدود سے تجاوز کر سکتا ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر عمل کرنے کا وہ مکلف ہے۔  جیسے انگریزی میں کہا جاتا ہے: One cannot grow out of his skin یعنی کسی نے موٹا ہونے کی جتنی بھی کوشش کرنی ہے اپنی کھال کے اندر رہ کر ہی کرنی ہے۔  وہ اپنی کھال سے باہر بہر حال نہیں نکل سکتا۔  چنانچہ ہر شخص اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کرتا ہے اور اللہ کو خوب علم ہے کہ اس نے کس کو کس طرح کا شاکلہ دے رکھا ہے۔  اور وہ ہر شخص سے اس کے شاکلہ کی مناسبت سے ہی حساب لے گا۔   (اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو بیان القرآن، جلد اول، سورۃ البقرۃ، تشریح  آیت: ۲۸۶۔)

              فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ اَہْدٰی سَبِیْلاً:   «پس آپ کا رب خوب جانتا ہے اُسے جو زیادہ سیدھے راستے پر ہے۔»

            اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ نے فرمایا:  «اَلنَّاسُ مَعَادِنُ»  کہ انسان معدنیات کی طرح ہیں۔  معدنیات میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی خصوصیات (properties) ہوتی ہیں۔  سونے کی ore چاندی کی ore سے بالکل مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔  اسی طرح ہر انسان کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کی خصوصیات سے خوب واقف ہے۔  

UP
X
<>