May 19, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 95

قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاء مَلَكًا رَّسُولاً 

کہہ دو کہ : ’’ اگر زمین میں فرشتے ہی اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو بیشک ہم آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بناکر بھیج دیتے۔‘‘

 آیت ۹۵:  قُلْ لَّــوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلاً:   «آپ فرما ئیں کہ اگر زمین میں فرشتے (آباد ہوتے اور وہ) اطمینان سے چلتے پھرتے ہوتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔»

            رسول کا کام ہے اللہ کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانا، اس کی ایک ایک بات کو سمجھانا اور پھر اللہ کے احکام کے مطابق عمل کر کے اپنی زندگی کو ان کے سامنے بطور نمونہ پیش کرنا۔  اب ظاہر ہے انسانوں کے لیے نمونہ تو ایک انسان ہی ہو سکتا ہے، فرشتہ تو ان کے لیے نمونہ نہیں بن سکتا۔  چنانچہ اگر ان کے پاس ایک فرشتہ رسول بن کر آ جاتا تو یہی لوگ کہتے کہ یہ تو فرشتہ ہے، اس کی کوئی خواہش ہے نہ ضرورت، نہ رشتہ ہے نہ ناتا، نہ جذبات ہیں نہ احساسات، ہماری اس سے کیا نسبت؟ ہماری تو گھر گرہستی ہے، اہل و عیال ہیں، مجبوریاں ہیں، ضرورتیں ہیں، طرح طرح کے جنجال ہیں، ہم اس کی سیرت اور اس کے کردار کی پیروی کیسے کر سکتے ہیں؟ البتہ اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے اور ان کی طرف رسول بھیجنا ہوتا تو ضرور کسی فرشتے ہی کو اس کام پر مامور کیا جاتا، مگر اب معاملہ چونکہ انسانوں کا ہے لہٰذا ان پر حجت قائم کرنے کے لیے لازماً کسی انسان ہی کو بطور رسول بھیجا جانا چاہیے تھا، سو ایسا ہی ہوا۔ 

UP
X
<>