April 26, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 28

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا 

اور اپنے آپ کو اِستقامت سے اُن لوگوں کے ساتھ ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رَبّ کو اس لئے پکارتے ہیں کہ وہ اُس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں ۔ اور تمہاری آنکھیں دُنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں ۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے، اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے، اور جس کا معاملہ حد سے گذر چکا ہے

 آیت ۲۸:   وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ:  «اور اپنے آپ کو روکے رکھیے اُن لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح وشام»

            یہ بلال حبشی، عبد اللہ بن اُمّ مکتوم، عمار بن یاسر اور خباب جیسے لوگ اگرچہ مفلس اور نادار ہیں مگر اللہ کی نظر میں بہت اہم ہیں۔ آپ ان لوگوں کی رفاقت کو غنیمت سمجھيے اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کیجیے۔

               یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا: «وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور آپ کی نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں، (جس سے لوگوں کو یہ گمان ہونے لگے کہ) آپ دُنیوی زندگی کی آرائش و زیبائش چاہتے ہیں!»

            ان غلاموں اور بے آسرا لوگوں سے آپ کی توجہ ہٹ کر کہیں مکہ کے سرداروں اور امراء کی طرف نہ ہونے پائے، جس سے لوگوں کو یہ گمان ہو کہ آپ بھی دنیا کی زیب و زینت ہی کو اہمیت دیتے ہیں۔ لہٰذا ولید بن مغیرہ بظاہر کتنا ہی با اثر اور صاحب ثروت سہی، آپ عبد اللہ بن اُمّ مکتوم کو نظر انداز کر کے اُسے ہرگز اہمیت نہ دیں۔ ترجمہ کے اعتبار سے یہ آیت مشکل آیات میں سے ہے۔ یہاں الفاظ کے عین مطابق ترجمہ ممکن نہیں۔ حضور کی یہ شان ہر گز نہ تھی کہ آپ کی نظریں غرباء سے ہٹ کر امراء کی طرف اٹھتیں۔ چنانچہ ان الفاظ سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ دراصل آپ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ دعوت و تبلیغ کی غرض سے بھی ان امراء کی طرف اس انداز میں التفات نہ فرمائیں جس سے کسی کو مغالطہ ہو کہ آپ کی نگاہ میں دُنیوی مال و اسباب کی بھی کچھ وقعت اور اہمیت ہے۔ سورۃ الحجر میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے:    لاَ تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہِٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ: «آپ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں اس مال و متاع کی طرف جو ہم نے ان کے مختلف گروہوں کو دے رکھا ہے اور آپ ان (امراء) کے بارے میں فکرمند نہ ہوں اور اہل ایمان کے لیے اپنے بازو جھکا کر رکھیں!»

            کسی بھی داعی حق کے لیے یہ معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ معاشرے کے اونچے طبقے کے لوگوں کا بہر حال اپنا ایک حلقہ اثر ہوتا ہے۔ ان میں سے اگر کوئی اہل حق کی صف میں شامل ہوتا ہے تو وہ اکیلا بہت سے افراد کے برابر شمار ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے کئی دوسرے لوگ خود بخود کھنچے آتے ہیں اور پہلے سے موجود لوگوں کے لیے بھی ایسے شخص کی شمولیت تقویت اور اطمینان کا باعث ہوتی ہے۔ جیسے حضور نے اللہ تعالیٰ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام (ابو جہل) میں سے کسی ایک کو ضرور میری جھولی میں ڈال دے! ان دونوں میں سے کوئی ایک ایمان لے آئے۔ ظاہر ہے کہ ان جیسی با اثر شخصیات میں سے کسی کا ایمان لانا اسلام کے لیے باعث ِتقویت ہو گا اور اس کی رفاقت سے ان کمزور مسلمانوں کو سہارا ملے گا جن پر قافیہ حیات تنگ ہوا جا رہا ہے۔ اور پھر واقعتا ایسا ہوا بھی کہ حضرت عمر اور حضرت حمزہ کے ایمان لانے کے بعد مکہ میں کمزور مسلمانوں پر قریش کے ظلم و تعدی میں کافی حد تک کمی آ گئی۔

            بہر حال اس سلسلے میں معروضی حقائق کسی بھی داعی کو اس طرف راغب کرتے ہیں کہ معاشرے کے متمول طبقوں اور ارباب ِاختیار و اقتدار تک پیغام حق ترجیحی بنیادوں پر پہنچایا جائے اور انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ مگر دوسری طرف اس حکمت عملی سے تحریک کے نادار اور عام ارکان کو یہ تاثر ملنے کا اندیشہ ہوتاہے کہ انہیں کم حیثیت سمجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس طرح اُن کی حوصلہ شکنی ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی داعی ٔحق اثر و رسوخ کے حامل افرادکی طرف ترجیحی انداز میں متوجہ ہو گا تو عوام میں اُس کی ذات اور اُس کی تحریک کے بارے میں یہ تاثر ابھرنے کا اندیشہ ہو گا کہ یہ لوگ بھی امراء اور اربابِ اختیار سے مرعوب ہیں اور ان کے ہاں بھی دُنیوی ٹھاٹھ باٹھ ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ چنانچہ دولت مند اور اثر و رسوخ کے حامل افراد تک دین کی دعوت کو پھیلانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں مذکورہ بالا دو عوامل کے منفی اثرات سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ حضور کو اس آیت میں حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ اس سلسلے میں احتیاط کریں، کہیں لوگ یہ تاثر نہ لے لیں کہ محمد کے ہاں بھی دولت مند لوگوں ہی کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔

               وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہُ فُرُطًا: «اور مت کہنا مانیے ایسے شخص کا جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جواپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا معاملہ حدسے متجاوز ہو چکا ہے۔»

            یہ بات متعدد بار بیان ہو چکی ہے کہ کفارِ مکہ رسول اللہ کے ساتھ مداہنت پر مصر تھے اور وہ آپ کے ساتھ کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں سردارانِ قریش کی طرف سے آپ پر شدید دباؤ تھا۔ اس پس منظر میں یہاں پھر متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں کو ہم نے اپنی یاد سے غافل اور محروم کر دیا ہے آپ ایسے لوگوں کی باتوں کی طرف دھیان بھی مت دیجیے!

UP
X
<>