May 4, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 48

وَعُرِضُوْا عَلٰي رَبِّكَ صَفًّا ۭ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍۢ ۡ بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا

اور سب کوتمہارے رَبّ کے سامنے صف باندھ کر پیش کیا جائے گا۔ آخر تم ہمارے پاس اُسی طرح آگئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔ اس کے برعکس تمہارا دعویٰ یہ تھا کہ ہم تمہارے لئے (یہ) مقرروقت کبھی نہیں لائیں گے

 آیت ۴۸:    وَعُرِضُوْا عَلٰی رَبِّکَ صَفًّا  لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ:   «اور وہ پیش کیے جائیں گے آپ کے رب کے سامنے صفیں باندھے ہوئے۔ (تب انہیں کہا جائے گا) آ گئے ہو نا ہمارے پاس، جیسے ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا!»

            یہاں «پہلی مرتبہ» پیدا کرنے سے مراد عالم ارواح میں انسانی ارواح کی تخلیق ہے، جبکہ اس زمین پر جسم اور روح کے ملاپ سے کی جانے والی انسانی تخلیق دراصل تخلیق ثانی ہے۔ فرض کریں اس دنیا کی عمر پندرہ ہزار برس ہے، تو ان پندرہ ہزار برسوں میں وہ تمام انسان اس دنیا میں آ چکے ہیں جن کی ارواح اللہ تعالیٰ نے پیدا کی تھیں۔ ان تمام انسانوں کو قیامت کے دن پھر سے اکٹھا کر لیا جائے گا۔ چنانچہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمام انسان جیسے عالم ارواح میں بیک وقت ایک جگہ اکٹھے تھے، اسی طرح قیامت کے دن بھی میدانِ حشر میں سب کے سب بیک وقت موجود ہوں گے۔

               بَلْ زَعَمْتُمْ اَ لَّنْ نَّجْعَلَ لَکُمْ مَّوْعِدًا:  «بلکہ تم نے تو سمجھ رکھا تھا کہ ہم تمہارے لیے وعدے کا کوئی وقت مقرر ہی نہیں کریں گے۔»

            یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو قرآن کے الفاظ میں:   اَلَّذِین لَاْ یَرْجُون لِقَاءَنَا.  (وہ لوگ جنہیں ہماری ملاقات کی امید نہیں) کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایسے لوگ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں ان کا وعده الست:   اَلَسْتُ بِرَبِّکُم.   (الاعراف:۱۷۲) بھی یاد دلایا جائے گا، کہ تم لوگوں نے مجھے اپنا رب تسلیم کیا تھا، پھر تم دنیا کی زندگی میں اس حقیقت کو بالکل ہی بھول گئے کہ تم نے واپس ہمارے پاس بھی آنا ہے۔ تمہیں گمان تک نہیں تھا کہ ہم تمہارے لیے اپنے سامنے پیشی کا کوئی وقت مقرر کریں گے۔ 

UP
X
<>