May 8, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 14

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ

 اور جب یہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لاچکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مذاق کررہے تھے 

آیت 14:   وَاِذَا لَـقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا:  اور جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان رکھتے ہیں۔

            عام یہودی بھی کہتے تھے کہ ہم  بھی تو آخر اللہ کو اور آخرت کو مانتے ہیں‘ جب کہ منافق تو رسول‘ کو بھی مانتے تھے۔

              وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ:  اور جب یہ خلوت میں ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس

            یہاں شیاطین سے مراد یہود کے علماء بھی ہو سکتے ہیں اور منافقین کے سردار بھی۔ عبد اللہ بن اُبي منافقینِ مدینہ کا سردار تھا۔ اگر وہ کبھی انہیں ملامت کرتا کہ معلوم ہوتا ہے تم تو بالکل پوری طرح سے مسلمانوں میں شامل ہی ہو گئے ہو‘ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم محمد   کی ہر بات مان رہے ہو‘ تو اب انہیں اپنی وفا داری کا یقین دلانے کے لیے کہنا پڑتا تھا کہ نہیں نہیں‘ ہم تو مسلمانوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں‘ ہم ان سے ذرا تمسخر کر رہے ہیں‘ ہم آپ ہی کے ساتھ ہیں‘ آپ فکر نہ کریں۔ منافق تو ہوتا ہی دو رُخا ہے۔ ’’نفق‘‘ کہتے ہیں سرنگ کو‘ جس کے دو راستے ہوتے ہیں۔ ’’نافقاء‘‘ گوہ کے ِبل کو کہا جاتا ہے۔ گوہ اپنے بل کے دو منہ رکھتا ہے کہ اگر کتا شکار کے لیے ایک طرف سے داخل ہو جائے تو وہ  دوسری طرف سے نکل بھاگے۔ تو منافق بھی ایسا شخص ہے جس کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ سورۃ النساء میں منافقین کے بارے میں کہاگیا ہے:  مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لآَ اِلٰی ھٰٓـؤُلَآء وَلَآ اِلٰی ھٰٓـؤُلَآء (آیت: 143) یعنی کفر و ایمان کے درمیان ڈانوان ڈول ہیں‘ مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ اِدھر کے ہیں نہ اُدھر کے ہیں۔

            لفظ ’’شَیْطٰن‘‘ کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مادہ ’’ش ط ن‘‘ ہے اور دوسری یہ کہ یہ ’’ش و ط‘‘ مادہ سے ہے۔ شَطَنَ کے معنی ہیں  تَـبَعَّدَ یعنی بہت دور ہو گیا۔ پس شیطان سے مراد ہے جو اللہ کی رحمت سے بہت دور ہو گیا۔ جب کہ شَاطَ  یَشُوْطُ کے معنی ہیں اِحْتَرَقَ غَضَبًا وَحَسَدًا یعنی کوئی شخص غصے اور حسد کے اندر جل اٹھا۔ اس سے فَعلَان کے وزن پر ’’شیطان‘‘ ہے‘ یعنی وہ جو حسد اور غضب کی آگ میں جل رہا ہے۔  چنانچہ ایک تو شیطان وہ ہے جو جنات میں سے ہے‘ جس کا نام پہلے ’’عزازیل‘‘ تھا‘ اب ہم اسے ابلیس کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر یہ کہ دنیا میں جو بھی اُس کے پیرو کار ہیں اور اس کے مشن میں شریک کار ہیں‘ خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے‘ وہ بھی شیاطین ہیں۔ اسی طرح اہل کفر اور اہل زیغ کے جو بڑے بڑے سردار ہوتے ہیں ان کو بھی شیاطین سے تعبیر کیا گیا۔ آیت زیر مطالعہ میں شیاطین سے یہی سردار مراد ہیں۔

            قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُوْنَ:  کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے تو محض مذاق کر رہے ہیں۔

            جب وہ علیحدگی میں اپنے شیطانوں یعنی سرداروں سے ملتے ہیں تو اُن سے کہتے ہیں  کہ اصل میں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں‘ ان مسلمانوں کو تو ہم بیوقوف بنا رہے ہیں‘ ان سے استہزاء اور تمسخر کر رہے ہیں جو ان کے سامنے ’’اٰمَنَّا‘‘ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔

UP
X
<>