May 8, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 16

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ

 یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔ 

آیت16:   اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰـلَۃَ بِالْھُدٰی:  یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے ہدایت کے عوض گمراہی خرید لی ہے۔

            یہ بڑا پیارا اندازِ بیان ہے۔ ان کے سامنے دونوں options تھے۔ ایک شخص نے گمراہی کو چھوڑا اور ہدایت لے لی۔ اسے اس کی بھاری قیمت دینا پڑی۔ اسے تکلیفیں اٹھانی پڑیں. آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا، قربانیاں دینا پڑیں۔ اس نے یہ سب کچھ منظور کیا اور ہدایت لے لی۔ جب کہ ایک شخص نے ہدایت دے کر گمراہی لے لی ہے۔ آسانی تو ہو گئی، فوری تکلیف سے تو بچ گئے، دونوں طرف سے اپنے مفادات کو بچا لیا، لیکن حقیقت میں سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا یہی ہے۔

فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ:  سو نافع نہ ہوئی ان کی تجارت ان کے حق میں اور نہ ہوئے راہ پانے والے۔

             رَبِحَ یَرْبَحُ   کے معنی ہیں تجارت وغیرہ میں نفع اٹھانا، جو ایک صحیح اور جائز نفع ہے، جب کہ  (ر ب و) مادہ سے رَبَا یَرْبُوْ  کے معنی بھی مال میں اضافہ اور بڑھوتری کے ہیں‘ لیکن وہ حرام ہے۔ تجارت کے اندر جو نفع ہو جائے وہ  (رِبح) ہے‘ جو جائز نفع ہے اور اپنا مال کسی کو قرض دے کر اُس سے سود وصول کرنا  (رِبا) ہے جو حرام ہے۔

            اب یہاں دو بڑی پیاری تمثیلیں آ رہی ہیں۔  پہلی تمثیل کفار کے بارے میں ہے اور دوسری تمثیل منافقین کے بارے میں۔ 

UP
X
<>