May 9, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 17

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ

 ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ روشن کی پھر جب اس ( آگ نے) اس کے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کرلیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا 

آیت 17:  مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا:  ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی۔

             فَلَمَّآ اَضَآءَتْ مَا حَوْلَـہ:  پھر جب اُس آگ نے سارے ماحول کو روشن کر دیا

            ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ:  تو اللہ نے ا ن کا نورِ بصارت سلب کر لیا

            وَتَرَکَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لاَّ یُبْصِرُوْنَ:  اور چھوڑ دیا ان کو ان اندھیروں کے اندر کہ وہ کچھ نہیں دیکھتے۔

            یہاں ایک شبِ تاریک کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے ۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں  

اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو

ترے   لیے     ہے  مرا  شعلۂ  نوا     قندیل!

اندھیری شب ہے۔ قافلہ بھٹک رہا ہے۔ کچھ لوگ بڑی ہمت کرتے ہیں کہ اندھیرے میں بھی اِدھر اُدھر سے لکڑیاں جمع کرتے ہیں اور آگ روشن کر دیتے ہیں۔ لیکن عین اُس وقت جب آگ روشن ہوتی ہے تو کچھ لوگوں کی بینائی سلب ہو جاتی ہے۔ پہلے وہ اندھیرے میں اس لیے تھے کہ خارج میں روشنی نہیں تھی۔ اب بھی وہ اندھیرے ہی میں رہ گئے کہ خارج میں تو روشنی آ گئی مگر ان کے اندر کی روشنی گل ہو گئی ، ان کی بصارت سلب ہو گئی۔ یہ مثال ہے اُن کفار کی جو اسلام کی روشنی پھیلنے کے باوجود اس سے محروم رہے ، محمد رسول اللہ  کی آمد سے پہلے ہر سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی حقیقت واضح نہیں تھی۔ قافلۂ انسانیت اندھیری شب میں بھٹک رہا تھا۔ محمد رسول اللہ  تشریف لائے اور انہوں نے آگ روشن کر دی۔ اس طرح ہدایت واضح ہو گئی۔ لیکن کچھ ضد ، تعصب ، تکبر يا حسد کی بنیاد پر کچھ لوگوں کی اندر کی بینائی زائل ہوگئی۔ چنانچہ وہ تو ویسے کے ویسے بھٹک رہے ہیں۔ جیسے پہلے اندھیرے میں تھے ویسے ہی اب بھی اندھیرے میں ہیں۔ روشنی میں آنے والے تو وہ ہیں جن کا ذکر سب سے پہلے  (المُتّقین) کے نام سے ہوا ہے۔

UP
X
<>