May 8, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 20

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

 ایسا لگتا ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو اچک لے جائے گی جب بھی ان کے لئے روشنی کردیتی ہے وہ اس (روشنی) میں چل پڑتے ہیں اور جب وہ ان پر اندھیرا کردیتی ہے تو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے سننے اور دیکھنے کی طاقتیں چھین لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے 

آیت 20:   یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبـْصَارَھُمْ:  قریب ہے کہ بجلی اُچک لے ان کی آنکھیں۔

            کُلَّمَآ اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہ:ِ  جب چمکتی ہے ان پر تو چلنے لگتے ہیں اس کی روشنی میں۔

            جونہی انہیں ذرا روشنی محسوس ہوتی ہے اور دائیں بائیں کچھ نظر آتا ہے تو کچھ دور چل لیتے ہیں۔

             وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا:  اور جب ان پر تاریکی طاری ہو جاتی ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں۔

            یہ ایک نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک طرف بارش ہو رہی ہے۔ یعنی قرآن مجید آسمان سے نازل ہو رہا ہے ۔ بارش کو قرآن مجید  (مَاءًا مُّبَارَکًا) قرار دیتا ہے اور یہ خود  (کِتَابٌ مُّبَارَکٌ) ہے۔ لیکن یہ کہ اس کے ساتھ کڑکے ہیں ، گرج ہے، کفر سے مقابلہ ہے، کفر کی طرف سے دھمکیاں ہیں ، اندیشے اور خطرات ہیں ، امتحانات اور آزمائشیں ہیں۔ چنانچہ منافقین کا معاملہ یہ ہے کہ ذرا کہیں حالات کچھ بہتر ہوئے ، کچھ breething space  ملی تو مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھوڑا سا چل لیے کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ جب وہ دیکھتے کہ حالات کچھ ُپر سکون ہیں ، کسی جنگ کے لیے بلایا نہیں جا رہا ہے تو بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے اور اپنے ایمان کا اظہار بھی کرتے ، لیکن جیسے ہی کوئی آزمائش آتی ٹھٹک کر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔

            وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ:  اور اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت کو سلب کر لیتا۔

            لیکن اللہ کا قانون یہی ہے کہ وہ فوری گرفت نہیں کرتا۔ اُس نے انسان کو ارادے اور عمل کی آزادی دی ہے۔ تم اگر مؤمن صادق بن کر رہنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ اُس روش کو تمہارے لیے آسان کر دے گا۔ اور اگر تم  نے اپنے تعصب یا تکبر کی وجہ سے  کفر کا راستہ اختیار کیا تو اللہ اُسی کو تمہارے لیے کھول دے گا۔ اور اگر تم بیچ میں لٹکنا چاہتے ہو (لآَ اِلٰی ھٰٓـؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓـؤُلَآءِ) تو لٹکتے رہو۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی کو جبراً حق پر لائے گا اور نہ ہی کسی کو جبراً باطل کی راہ پر لے کر جائے گا۔ اس لیے کہ اگر جبر کا معاملہ ہو تو پھر امتحان کیسا؟ پھر تو جزا و سزا کا تصور غیر منطقی اور غیر معقول ٹھہرتا ہے۔

            اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ:  یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

            سورۃ البقرۃ کے یہ ابتدائی دو رکوع اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں انسانی شخصیتوں کی تین گروہوں میں تقسیم کردی گئی ہے ، اور تأویلِ عام ذہن میں رکھیے کہ جب بھی کوئی دعوتِ حق اُٹھے گی ، اگر وہ واقعتًا کل کی کل حق کی دعوت ہو اور اُس میں انقلابی رنگ ہو کہ باطل سے پنجہ آزمائی کر کے اسے نیچا دکھانا ہے اور حق کو غالب کرنا ہے ، تو یہ تین قسم کے افراد لازماً وجود میں آ جائیں گے۔ ان کو پہچاننا اور ان کے کردار کے پیچھے جو اصل پس منظر ہے اس کو جاننا بہت ضروری ہے۔

UP
X
<>