May 6, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 21

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

 اے لوگو اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ 

 آیت 21:    یٰٓـاَیـُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّــکُمُ الَّذِیْ خَلَـقَـکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّــکُمْ تَـتَّقُوْنَ:  اے لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس ربّ (مالک) کی جس نے تم کو پیدا کیا اور تم سے پہلے جتنے لوگ  گزرے ہیں (انہیں بھی پیدا کیا) تاکہ تم بچ سکو۔

             یہ قرآن کی دعوت کا خلاصہ ہے اور یہی تمام انبیاء و رُسل کی دعوت تھی۔ سورۃ الاعراف اور ُسورة ہود میں ایک ایک رسول کا نام لے کر اس کی دعوت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:  یٰــقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَــکُمْ مِّنْ اِلٰــہٍ غَیْرُہ   اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو ، تمہارا کوئی اور الٰہ اُس کے سوا نہیں ہے ، ،۔ سورۃ الشعراء میں رسولوں کی دعوت کے ضمن میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں:  فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ   (پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو)۔ سورة نوح میں حضرت نوح کی دعوت ان الفاظ میں بیان ہوئی:  اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ    (کہ اللہ کی بندگی کرو، اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!)

            پھر ازروئے قرآن یہی عبادتِ ربّ انسان کی غایتِ ِتخلیق ہے:  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ:(الذّٰریٰت)  (اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی صرف اس لیے کیا ہے کہ ہماری بندگی کریں)۔ چنانچہ تمام رسولوں کی دعوت یہی  (عبادتِ ربّ) ہے اور محمد رسول اللہ  کی دعوت بھی یہی ہے ، لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق واقع ہو گیا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رسولوں کی دعوت کے ضمن میں صیغۂ خطاب  (یٰــقَوْمِ)  ہے۔ (یعنی  اے میری قوم کے لوگو!)، جب کہ یہاں صیغۂ خطاب ہے: یٰٓـــاَیـُّھَا النَّاسُ:  (یعنی  اے بنی نوعِ انسان!) معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ  سے پہلے تمام رسول صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف آئے، جب کہ پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ،  اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل رسول ہیں جن کی دعوت آفاقی ہے۔

            عام طور پر لوگ جو غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں اُس پر اِس دلیل سے جمے رہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اَجداد کا راستہ یہی تھا ۔   الَّذِیْ خَلَـقَـکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ: کے الفاظ میں اس دلیل کا ردّ بھی موجود ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے، جیسے تم خطا کر سکتے ہو اسی طرح وہ بھی تو خطا کر سکتے تھے۔  لہٰذا یہ نہ دیکھو کہ آباء و اجداد کا راستہ کیا تھا ، بلکہ یہ دیکھو کہ حق کیا ہے۔

              لَـعَلَّــکُمْ تَـتَّقُوْنَ : (تاکہ تم بچ سکو)۔ یعنی دنیا میں افراط و تفریط کے دھکوں سے بچ سکو اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکو۔ ان دونوں سے اگر بچنا ہے تو اللہ کی بندگی کی روش اختیار کرو۔

UP
X
<>