May 6, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 22

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

 (وہ پروردگار) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے، لہذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم ( یہ سب باتیں) جانتے ہو 

 آیت  22:    الَّذِیْ جَعَلَ لَــکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً:  جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنا دیا اور آسمان کو چھت بنا دیا۔

             وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: اور آسمان سے پانی برسایا ، ،

             فَاَخْرَجَ بِہ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّــکُمْ:  پھر اُس (پانی) کے ذریعے سے (زمین سے) ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا 

             فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ:  تو ہرگز اللہ کے مد مقابل نہ ٹھہرائو جانتے ، بوجھتے۔ 

            وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ: کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب تم بھی مانتے ہو کہ اس کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ، تو پھر اس کے شریک کیوں ٹھہراتے ہو؟ اہل عرب یہ بات مانتے تھے کہ کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے ، البتہ جو اُن کے دیوی دیوتا تھے انہیں وہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کے اَوتار ہیں یا اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ ہیں ، اُس کے محبوب ہیں ، اُس کے اولیاء ہیں ، اُس کی بیٹیاں ہیں ، لہٰذا یہ شفاعت کریں گے تو ہمارا بیڑا پار ہو جائے گا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب تم یہ مانتے ہو کہ کائنات کا خالق ایک اللہ ہے ، وہی اس کا مدبر ہے تو اب کسی کو اس کا مدمقابل نہ بنائو۔  ّ

            اَنْدَاد  نِدّ  کی جمع ہے ، اس کا معنی مد مقابل ہے۔ خطبہ ٔ جمعہ میں آپ نے یہ الفاظ سنے ہوں گے :  لَا ضِدَّ لَـہ وَلَا نِدَّ لَـہ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  سے دریافت کیا: اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟  آپ  نے فرمایا: ((اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ))   (یہ کہ تو اس کا کوئی مد مقابل ٹھہرائے حالانکہ اُس نے تجھے پیدا کیا ہے۔   اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کسی درجے میں کوئی شریک یا مد مقابل نہیں ہے۔ اس ضمن میں رسول اللہ  اُمت کو اس درجے توحید کی باریکیوں تک پہنچا کر گئے ہیں کہ ایسے تصورات ّکی بالکل جڑ کٹ جاتی ہے۔ ایک صحابی  نے آپ  کے سامنے ایسے ہی کہہ دیا:   مَاشَاءَ اللّٰہُ وَمَا شِئْتَ  یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں۔ آپ  نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور فرمایا: ((اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا؟ مَا شَاءَ اللّٰہُ وَحْدَہ)) کیا تو نے مجھے اللہ کا مدمقابل بنا دیا ہے؟ (بلکہ وہی ہو گا) جو تنہا اللہ چاہے۔   اس کائنات میں مشیت صرف ایک ہستی کی چلتی ہے۔ کسی اور کی مشیت اس کی مشیت کے تابع پوری ہو جائے تو ہو جائے ، لیکن مشیت ِمطلقہ صرف اُس کی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں رسول اللہ  سے فرمایا گیا:

 اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰــکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ: (القصص: 56)

 (اے نبی !) یقینا آپ جسے چاہیں اُسے ہدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔  

اگر ہدایت کا معاملہ رسول اللہ  کے اختیار میں ہوتا تو ابو طالب دنیا سے ایمان لائے بغیر رخصت نہ ہوتے۔

            ان دو آیتوں میں توحید کے دونوں پہلو بیان ہو گئے ، توحید نظری بھی اور توحید عملی بھی۔ توحید عملی یہ ہے کہ بندگی صرف اُسی کی ہے۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالرسالت کا بیان آرہا ہے۔

UP
X
<>