May 6, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 23

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

 اور اگر تم اس ( قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلالو۔ 

آیت 23:    وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا:  اور اگر تم واقعتا شک میں ہو اس کلام کے بارے میں جو ہم نے اتارا اپنے بندے پر (کہ یہ ہمارا نازل کردہ ہے یا نہیں)   

   فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہ:  تو لے آؤ ایک ہی سورت اِس جیسی.

        تعارفِ قرآن میں یہ بات تفصیل سے بیان کی گئی تھی کہ قرآن حکیم میں ایسے پانچ مقامات ہیں جہاں پر یہ چیلنج موجود  ہے کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ کلام محمد کی اختراع ہے تو تم  بھی مقابلے میں ایسا ہی کلام پیش کرو۔ سورۃ الطور کی آیات 33،34 میں ارشاد ہوا:  (کیا ان کا یہ کہنا ہے کہ اسے محمد نے خود گھڑ لیا ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں۔ پھر چاہیے کہ وہ اسی طرح کا کوئی کلام پیش کریں اگر وہ سچے ہیں)۔ سوره بنی اسراءیل (آیت: 88) میں فرمایا گیا کہ  (اگر تمام جن و انس جمع ہو کر بھی اس قرآن جیسی کتاب پیش کرنا چاہیں تو ہرگز نہیں کر سکیں گے ، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں)۔ پھر سوره ہود (آیت: 13) میں فرمایا گیا کہ  (اے نبیؐ ان سے کہہ دیجیے (اگرپورے قرآن کی نظیر نہیں لا سکتے) تو ایسی دس سورتیں ہی گھڑ کر لے آئو!) اس کے بعد مزید نیچے اتر کر  ، جسے بر سبیلِ تنزل کہا جاتا ہے ، سورئہ یونس (آیت: 38) میں اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر لے آنے کا چیلنج دیا گیا۔ مذکورہ بالا تمام مقامات مکی سورتوں میں ہیں۔ پہلی مدنی سورۃ  البقرۃ  کی آیت زیر مطالعہ میں یہی بات بڑے اہتمام کے ساتھ فرمائی گئی کہ اگر تم لوگوں کو اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم  نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے (کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے) تو اس جیسی ایک سورت تم بھی موزوں کر کے لے آؤ! یہ ایک سورت سورۃ العصر کے مساوی بھی ہو سکتی تھی ، سورۃ الکوثر کے مساوی بھی ہو سکتی تھی۔

    وَادْعُوْا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ:  اور بلا لو اپنے سارے مدد گاروں کو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو۔  

            قریش کا خیال یہ تھا کہ شعراء کے پاس جن ہوتے ہیں ، جو انہیں شعر سکھاتے ہیں ، ورنہ عام آدمی تو شعر نہیں کہہ سکتا۔ چنانچہ فرمایا کہ جو بھی تمہارے مدد گار ہوں  ، ایک اللہ کو چھوڑ کر جس کی بھی تم مدد حاصل کر سکتے ہو ، جنات ہوں یا انسان ہوں  ، خطیب ہوں  ، شعراء ہوں یا ادیب ہوں ، ان سب کو جمع کر لو اور اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کر لے آؤ، اگر تم سچے ہو۔

            قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ یہاں گویا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہا جا رہا ہے کہ حقیقت میں تمہیں اس قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، یہ تو تم محض بات بنا رہے ہو۔ اگر تمہیں واقعتا شک ہے ، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آؤ میدان میں اور اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ!   

UP
X
<>