May 6, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 25

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

 اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغات (تیار) ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی  جب کبھی ان کو ان (باغات) میں سے کوئی پھل رزق کے طور پر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے ” یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا گیا تھا “ اور انہیں وہ رزق ایسا ہی دیا جائے گا جو دیکھنے میں ملتا جلتا ہوگا (٢١) اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (باغات) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ 

 آیت 25:  وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ:  اور بشارت دے دیجیے (اے نبی!) ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے.

      اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰـرُ:  کہ اُن کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی۔

            یہ لفظی ترجمہ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی۔ اس لیے کہ فطری باغ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جس میں ذرا اُونچائی پر درخت لگے ہوئے ہیں اور دامن میں ندی بہہ رہی ہے ، جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور درختوں کی جڑوں تک پانی پہنچ رہا ہے۔

     کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا:  جب بھی انہیں دیا جائے گا وہاں کا کوئی پھل رزق کے طور پر (یعنی کھانے کے لیے)

             قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ:  وہ کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی ملتا تھا،

             وَاُتُوْا بِہ مُتَشَابِھًا:  اور دیے جائیں گے ان کو پھل ایک صورت کے۔

            اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جنت میں اہل جنت کی جو ابتدائی دعوت یا ابتدائی ضیافت (نُزُل) ہو گی اس میں انہیں وہی پھل پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں معروف ہیں  ، مثلاً انار ، انگور ، سیب ، کھجور وغیرہ۔ اہلِ جنت انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہم دنیا میں کھاتے آئے ہیں ، لیکن جب انہیں چکھیں گے تو ظاہری مشابہت کے باوجود ذائقے میں زمین و آسمان کا فرق پائیں گے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اہل جنت کو جنت میں بھی وہی پھل ملتے رہیں گے ، لیکن ہر بار اُن کا ذائقہ بدلتا رہے گا۔ ان کی شکل و صورت وہی رہے گی ، لیکن ذائقہ وہ نہیں رہے گا۔ لہٰذا یہ دنیا والا معاملہ نہیں ہو گا کہ ایک ہی شے کو کھاتے کھاتے انسان کی طبیعت بھر جاتی ہے۔

     وَلَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ: اور ان کے لیے اُس (جنت) میں نہایت پاک باز بیویاں ہوں گی۔  

      وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ:  اور وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ۔  

    ان پانچ آیات (۲۱ تا ۲۵) میں ایمانیات ثلاثہ یعنی ایمان باللہ ، ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرت کی دعوت آ گئی۔ اب  آگے کچھ ضمنی مسائل زیر بحث آئیں گے۔ 

UP
X
<>