May 6, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 26

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

 بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئی بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے۔ البتہ جو لوگ کافر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے ؟ (اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں 

آیت 26:   اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا:  «یقینا اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ بیان کرے کوئی مثال مچھر کی یا اُس چیز کی جو اس سے بڑھ  کر ہے»۔

            کفار ّکی طرف سے قرآن کے بارے میں کئی اعتراضات اٹھائے جاتے تھے۔ وہ کبھی بھی اُس چیلنج کا مقابلہ تو نہ کر سکے جو قرآن نے انہیں  فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہ: کے الفاظ میں دیا تھا، لیکن خواہ مخواہ کے اعتراضات اٹھاتے رہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کسی مصور ّکی تصویر پر اعتراض کرنے والے تو بہت تھے لیکن جب کہا گیا کہ یہ برش لیجیے اور ذرا اس کو ٹھیک کر دیجیے تو سب پیچھے ہٹ گئے۔ قرآن کے مقابلے میں کوئی سورت لانا تو ان کے لیے ممکن نہیں تھا لیکن اِدھر اُدھر سے اعتراضات کرنے کے لیے ان کی زبانیں کھلتی تھیں۔ اُن میں سے ان کا ایک اعتراض یہاں نقل کیا جا رہا ہے کہ قرآن مجید میں مکھی کی تشبیہہ آئی ہے ، یہ تو بہت حقیر سی شے ہے۔  کوئی اعلیٰ متکلم ّاپنے اعلیٰ کلام میں ایسی حقیر چیزوں کا تذکرہ نہیں کرتا۔  قرآن مجید میں مکڑی جیسی حقیر شے کا بھی ذکر ہے، چنانچہ یہ کوئی اعلیٰ کلام نہیں ہے۔  یہاں اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔  در اصل تشبیہہ اور تمثیل کے اندر ممثل لہ اور ممثل بہ میں مناسبت اور مطابقت ہونی چاہیے۔ یعنی کوئی تمثیل یا تشبیہہ بیان کرنی ہو تو جس شے کے لیے تشبیہہ دی جا رہی ہے اُس سے مطابقت اور مناسبت رکھنے والی شے سے تشبیہہ دی جانی چاہیے۔ کوئی شے اگر بہت حقیر ہے تو اسے کسی عظمت والی شے سے آخر کیسے تشبیہہ دی جائے گی؟ اسے تو کسی حقیر شے ہی سے تشبیہہ دی جائے گی تو تشبیہہ کا اصل مقصد پورا ہو گا۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی شرم یا عار کی بات نہیں ہے کہ وہ مچھر کی مثال بیان کرے یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے۔  لفظ  «فَوْقَھَا» (اس سے اوپر) میں دونوں معنی موجود ہیں۔ یعنی کمتر اور حقیر ہونے میں اس سے بھی بڑھ کر یا یہ کہ اُس سے اوپر کی کوئی شے۔ اس لیے کہ مکھی یا مکڑی بہر حال مچھر سے ذرا بڑی شے ہے۔

             فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّـہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبـِّھِمْ:  تو جو لوگ صاحب ِایمان ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ یقینا حق ہے اُن کے ربّ کی طرف سے۔

             وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَـیَـقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِھٰذَا مَثَلًا:  اور جنہوں نے کفر کیا سو وہ کہتے ہیں کہ کیا مطلب تھا اللہ کا اس مثال سے؟

            حق کے منکر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں اور اعتراض کر رہے ہیں کہ اس مثال سے اللہ نے کیا مراد لی ہے؟ اس ضمن میں اگلا جملہ بہت اہم  ہے۔

             یُضِلُّ بِہ کَثِیْرًا وَّیَھْدِیْ بِہ کَثِیْرًا:  گمراہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے بہتوں کو اور ہدایت دیتا ہے اسی کے ذریعے سے بہتوں کو۔

            اِن مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سوں کو گمراہی میں مبتلا  کر دیتا ہے اور بہت سوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہدایت اور گمراہی کا دار و مدار انسان کی اپنی داخلی کیفیت  (subjective condition) پر ہے۔ آپ کے دل میں خیر ہے، بھلائی ہے،  آپ کی نیت طلب ِہدایت اور طلب ِعلم کی ہے تو آپ کو اس قرآن سے ہدایت مل جائے گی ، اور اگر دل میں زیغ ہے ، کجی ہے ، نیت میں ٹیڑھ اور فساد ہے تو اسی کے ذریعے سے اللہ آپ کی گمراہی میں اضافہ کر دے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا کسی کو ہدایت دینا اور کسی کو گمراہی میں مبتلا کر دینا الل ٹپ نہیں ہے ، کسی قاعدے اور قانون کے بغیر نہیں ہے۔

             وَمَا یُضِلُّ بِہ اِلاَّ الْفٰسِقِیْنَ:  اور نہیں گمراہ کرتا وہ اس کے ذریعے سے مگر صرف سرکش لوگوں کو۔

            اس سے گمراہی میں وہ صرف انہی کو مبتلا کرتا ہے جن میں سرکشی ہے ، تعدی ّہے ، تکبر ہے۔ اگلی آیت میں اُن کے اوصاف بیان کر دیے گئے۔ 

UP
X
<>