May 6, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 27

الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

 وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں  اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں  ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔ 

 آیت 27:    الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہ:  جو توڑ دیتے ہیں اللہ کے (ساتھ کیے ہوئے) عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد۔ 

            اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان سب سے بڑا عہد  «عہد ِالست» ہے، جس کا ذکر سورۃ الاعراف میں آئے گا۔ یہ عہد عالم ِ ارواح میں تمام ارواحِ انسانیہ نے کیا تھا ، ان میں مَیں بھی تھا ، آپ بھی تھے ، سب تھے۔ الغرض تمام کے تمام انسان جتنے آج تک دنیا میں آ چکے ہیں اور جو قیامت تک ابھی آنے والے ہیں  اس عہد کے وقت موجود تھے ، لیکن صرف ارواح کی شکل میں تھے ، جسم موجود نہیں تھے۔ اور یہ بات یاد رکھیے کہ انسان کا روحانی وجود مکمل وجود ہے اور اوّلاً تخلیق اُسی کی ہوئی تھی۔  «عہد ِالست» میں تمام بنی آدم سے اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟) سب نے ایک ہی جواب دیا: بَلٰی (کیوں نہیں!) تو یہ جو فاسق ہیں ، نافرمان ہیں ، سرکش ہیں ، انہوں نے اس عہد کو توڑا اور اللہ  کو اپنا مالک ، اپنا خالق اور اپنا حاکم ماننے کی بجائے خود حاکم بن کر بیٹھ گئے اور اس طرح کے دعوے کیے:  اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ: کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ غیر اللہ کی حاکمیت ّ(sovereignty)  کو تسلیم کرنا سب سے بڑی بغاوت ، سرکشی ، فسق اور نافرمانی ہے ، خواہ وہ ملوکیت ّکی صورت میں ہو یا عوامی حاکمیت  (popular sovereignty) کی صورت میں۔

             وَیَـقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہ اَنْ یُّوْصَلَ:  اور کاٹتے ہیں اُس چیز کو جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے،   

            اللہ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے ، یہ قطع رحمی کرتے ہیں۔ مال کی طلب میں ، اُس کے مال کو ہتھیانے کے لیے بھائی بھائی کو ختم کر دیتا ہے۔ انسان اپنی ذاتی اغراض کے لیے  ، اپنے تکبر ّاور تعلّی کی خاطر تمام اخلاقی حدود کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ہماری شریعت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں دو طرح کے تعلقات جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تعلق ہے بندے کا اللہ کے ساتھ، اس کا تعلق  «حقوق اللہ» سے ہے۔ جبکہ ایک تعلق ہے بندوں کا بندوں کے ساتھ، یہ  «حقوق العباد» سے متعلق ہے۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ اُسے حاکم اور مالک سمجھو اور خود اُس کے بندے بنو۔ جبکہ انسانوں کا حق یہ ہے کہ: ((کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا))  «سب آپس میں بھائی بھائی ہو کر اللہ کے بندے بن جاؤ»۔  اس ضمن میں اہم ترین رحمی رشتہ ہے، یعنی سگے بہن بھائی ۔ پھر دادا دادی کی اولاد میں تمام چچا زاد وغیرہ (cousins) آجائیں گے۔ اس کے اوپر پردادا پردادی کی اولاد کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا۔ اسی طرح اوپر چلتے جائیں یہاں تک کہ آدم و حوا پر تمام انسان جمع ہو جائیں گے ۔ تو رحمی رشتہ کی بڑی اہمیت ہے۔  یہاں فاسقین کی دو صفات بیان کر دی گئیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے یہ انہیں قطع کرتے ہیں۔

             وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ:  اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔

            متذکرہ بالا دونوں چیزوں کے نتیجے میں زمین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ انسان اللہ کی اطاعت سے باغی ہو جائیں یا آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگیں تو اس کا نتیجہ فساد فی الارض کی صورت میں نکلتا ہے۔

             اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ:  یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

            یہی لوگ ہیں جو بالآخر آخری اور دائمی خسارے میں رہنے والے ہیں۔

UP
X
<>