May 6, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 28

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

 تم اللہ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کرلیتے ہو حالانکہ تم بےجان تھے اسی نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تم کو ( دوبارہ) زندہ کرے گا اور پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے 

 آیت 28:  کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ:  تم کیسے کفر کرتے ہو اللہ کا حالانکہ تم مردہ تھے، پھر اُس نے تمہیں زندہ کیا۔   ُ

 

             ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْـکُمْ ثُمَّ اِلَـیْہِ تُرْجَعُوْنَ:  پھر وہ تمہیں مارے گا ، پھر جلائے گا ، پھر تم اُسی کی طرف لوٹا دیے جاؤ گے۔     ُ

            اس مقا م پر ایک بڑی گہری حکمت اور فلسفے کی بات بیان کی گئی ہے جو آج نگاہوں سے بالکل اوجھل ہو چکی ہے۔ وہ یہ کہ ہم دنیا میں آنے سے پہلے مردہ تھے «کُنْتُمْ اَمْوَاتًا» اس کے کیا معنی ہیں؟

            یہ مضمون سورئہ غافر سورۃ المؤمن میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے ، جو سورۃ البقرۃ سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ لہٰذا یہاں اجمالی تذکرہ ہے۔ وہاں اہل جہنم کا قول بایں الفاظ نقل ہوا ہے:  رَبَّـنَا اَمَتَّـنَا اثْـنَـتَیْنِ وَاَحْیَیْتَـنَا اثْـنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْـنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ.  «اے ہمارے ربّ! تو نے دو مرتبہ ہم پر موت وارد کی اور دو مرتبہ ہمیں زندہ کیا ، اب ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے ، تو اب یہاں سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ ہے؟»  اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ انسان کی تخلیق ِاوّل عالم ِارواح میں صرف ارواح کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ احادیث میں الفاظ وارد ہوئے ہیں: ((اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ)) [متفق علیہ] یعنی ارواح جمع شدہ لشکروں کی صورت میں تھیں۔ ان ارواح سے وہ عہد لیا گیا جو  «عہد ِالست» کہلاتا ہے۔ پھر انہیں سلا دیا گیا۔ یہ گویا پہلی موت تھی جو ہم گزار آئے ہیں۔ (آپ جانتے ہیں کہ ُمردہ معدوم نہیں ہوتا ، بے جان ہوتا ہے ، ایک طرح سے سویا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں موت اور نیند کو باہم تشبیہہ دی گئی ہے)۔  پھر دنیا میں عالم ِخلق کا مرحلہ آیا ، جس میں تناسل کے ذریعے سے اجسادِ انسانیہ کی تخلیق ہوتی ہے اور اُن میں ارواح پھونکی جاتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی متفق علیہ حدیث کے مطابق رحم ِمادر میں جنین جب چار ماہ کا ہو جاتا ہے تو اُس میں وہ روح لا کر پھونک دی جاتی ہے۔ یہ گویا پہلی مرتبہ کا زندہ کیا جانا ہو گیا۔ ہم اِس دنیا میں اپنے جسد کے ساتھ زندہ ہو گئے ، ہمیں پہلی موت کی نیند سے جگا دیا گیا۔ اب ہمیں جو موت آئے گی وہ ہماری دوسری موت ہو گی اور اس کے نتیجے میں ہمارا جسد وہیں چلا جائے گا جہاں سے آیا تھا (یعنی مٹی میں) اور ہماری روح بھی جہاں سے آئی تھی وہیں واپس چلی جائے گی۔ یہ فلسفہ و حکمت ِقرآنی کا بہت گہرا نکتہ ہے۔

UP
X
<>