May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 253

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ

یہ پیغمبر جو ہم نے (مخلوق کی اصلاح کیلئے) بھیجے ہیں، ان کو ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے ۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اﷲ نے کلام فرمایا، اور ان میں سے بعض کو اس نے بدرجہا بلندی عطا کی ۔ اور ہم نے عیسیٰ ابنِ مریم کو کھلی نشانیاں دیں، اور روح القدس سے ان کی مدد فرمائی ۔ اور اگر اﷲ چاہتا تو ان کے بعد والے لوگ اپنے پاس روشن دلائل آجانے کے بعد آپس میں نہ لڑ تے، لیکن انہوں نے خود اختلاف کیا، چنانچہ ان میں سے کچھ وہ تھے جو ایمان لائے اور کچھ وہ جنہوں نے کفر اپنایا اور اگر اﷲ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے، لیکن اﷲ وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے

 آیت 253:    تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ:   «ان رسولوں   میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ »

            یہ ایک بہت اہم اصول بیان ہو رہا ہے۔  یہ بات قبل ازیں بیان کی جا چکی ہے کہ «تفریق بین الرسل» کفر ہے‘ جبکہ «تفضیل» قرآن سے ثابت ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت بخشی ہے اور اس اعتبار سے وہ دوسروں پر ممتاز ہے۔  چنانچہ جزوی فضیلتیں مختلف رسولوں کی ہو سکتی ہیں ‘ البتہ کلی ّفضیلت تمام انبیاء و رُسل  پر محمد ٌرسول اللہ  کو حاصل ہے۔

             مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ :   «ان میں سے وہ بھی تھے جن سے اللہ نے کلام فرمایا»

            یہ حضرت موسی کی فضیلت کا خاص پہلو ہے۔

             وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ :   «اور بعض کے درجات (کسی اور اعتبار سے) بڑھا دیے۔ »

             وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَـیِّنٰتِ :  «اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم  کو بڑے کھلے معجزے دیے»

             وَاَیَّدْنٰـہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ :  «اور ان کی مدد فرمائی روح القدس (حضرت جبرائیل) کے ساتھ۔ »

             وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ :   «اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد آنے والے آپس میں نہ لڑتے جھگڑتے»

            یعنی نہ تو یہودیوں کی آپس میں جنگیں ہوتیں‘ نہ یہودیوں اور نصرانیوں کی لڑائیاں ہوتیں‘ اور نہ ہی نصرانیوں کے فرقے ایک دوسرے سے لڑتے۔

             مِّنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْہُمُ الْبَـیِّنٰتُ :   «اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح تعلیمات آچکی تھیں»

              وَلٰــکِنِ اخْتَلَفُوْا :   «لیکن انہوں نے اختلاف کیا»

             فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ :   «پھر کوئی تو اُن میں سے ایمان لایا اور کوئی کفر پر اڑا رہا۔ »

             وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا :   «اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے۔ »

            یعنی اگر اللہ تعالیٰ جبراً تکوینی طور پر ان پر لازم کر دیتا تو وہ اختلاف نہ کرتے اور آپس میں جنگ و جدال سے باز رہتے۔

             وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ :   «لیکن اللہ تو کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ »

            اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس حکمت پر بنایا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی آزمائش ہے۔  چنانچہ آزمائش کے لیے اُس نے انسان کو آزادی دی ہے۔  تو جو شخص غلط راستے پر جانا چاہتا ہے اسے بھی آزادی ہے اور جو صحیح راستے پر آنا چاہے اسے بھی آزادی ہے۔ 

UP
X
<>