May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 255

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

اﷲ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو سدا زندہ ہے، جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے، جس کو نہ کبھی اونگھ لگتی ہے، نہ نیند ۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے (وہ بھی) اور زمین میں جو کچھ ہے (وہ بھی) سب اسی کا ہے ۔ کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے؟ وہ سارے بندوں کے تما م آگے پیچھے کے حالات کو خوب جانتا ہے، اور وہ لوگ اس کے علم کی کوئی بات اپنے علم کے دائرے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جسے وہ خود چاہے ۔ اس کی کرسی نے سارے آسمانوں اور زمین کو گھیرا ہوا ہے ۔ اور ان دونوں کی نگہبانی سے اسے ذرابھی بوجھ نہیں ہوتا، اوروہ بڑا عالی مقام، صاحبِ عظمت ہے ۔

 اب وہ آیت آ رہی ہے جو ازروئے فرمانِ نبوی  قرآن حکیم کی عظیم ترین آیت ہے‘ یعنی «آیۃ الکرسی»۔  اس کا نام بھی معروف ہے۔  میں نے آپ کو سورۃ البقرۃ میں آنے والے حکمت کے بڑے بڑے موتی اور بڑے بڑے پھول گنوائے ہیں‘ مثلاً آیۃ الآیات‘ آیۃ البر‘ آیۃ الاختلاف‘ اور اب یہ آیۃ الکرسی ہے جو توحید کے عظیم ترین خزانوں میں سے ہے۔ رسول اللہ  نے اسے تمام آیاتِ قرآنی کی سردار قرار دیا ہے۔  حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

((لِکُلِّ شَیْئٍ سَنَامٌ وَاِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ ‘ وَفِیْھَا آیَۃٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ آيِ الْقُرْآنِ‘ ھِیَ آیَۃُ الْکُرْسِیِّ))

«ہر شے کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور یقینا قرآن حکیم کی چوٹی سورۃ البقرۃ ہے‘ اس میں ایک آیت ہے جو آیاتِ قرآنی کی سردار ہے‘ یہ آیۃ الکرسی ہے۔ »

            جس طرح آیۃ البر اور سورۃ العصر میں ایک نسبت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور نجات کی ساری کی ساری شرائط ایک چھوٹی سی سورۃ میں جمع کر دیں:  وَالْعَصْرِ   اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ  اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِِّ  وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ .  لیکن اس کی تفصیل ایک آیت میں بیان ہوئی ہے اور وہ آیۃ البر ہے۔  چنانچہ ہم نے مطالعۂ قرآن حکیم کا جو منتخب نصاب مرتب ّکیا ہے اُس میں پہلا درس سورۃ العصر کا ہے اور دوسرا آیۃ البر کا ہے۔  یہی نسبت آیۃ الکرسی اور سورۃ الاخلاص میں ہے۔  سورۃ العصر ایک مختصر سی سورت ہے جبکہ آیۃ البر ایک طویل آیت ہے۔  اسی طرح سورۃ الاخلاص چار آیات پر مشتمل ایک چھوٹی سی سورت ہے اور یہ آیۃ الکرسی ایک طویل آیت ہے۔  سورۃ الاخلاص توحید کا عظیم ترین خزانہ ہے اور توحید کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین سورت ہے‘ چنانچہ رسول اللہ  نے اسے ُثلث ِقرآن قرار دیا ہے‘ جبکہ توحید اور خاص طور پر توحید فی الصفات کے موضوع پر قرآن کریم کی عظیم ترین آیت یہ آیۃ الکرسی ہے۔  

 آیت 255:    اَللّٰہُ لَآ اِلٰــہَ اِلاَّ ہُوَ :   «اللہ وہ معبود ِبرحق ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ »

             اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ :   «وہ زندہ ہے‘ سب کا قائم رکھنے والا ہے۔ »

            وہ از خود اور باخود زندہ ہے۔  اس کی زندگی مستعار نہیں ہے۔  اس کی زندگی ہماری زندگی کی مانند نہیں ہے‘ جس کے بارے میں بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا:  

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے    دو انتظار میں!

اللہ تعالیٰ کی زندگی «حیاتِ مستعار» نہیں ہے ‘ وہ کسی کی دی ہوئی نہیں ہے۔  اس کی زندگی میں کوئی ضعف ‘ کوئی کمزوری اور کوئی احتیاج نہیں ہے۔  وہ خود اپنی جگہ زندہ و جاوید ہستی ہے اور باقی ہر شے کا وجود اس کے حکم سے قائم ہے۔  وہ «اَلْقَیُّوْمُ» ہے۔  اُس کے اِذن کے بغیر کوئی شے قائم نہیں ہے۔  سورۃ الاخلاص میں اللہ تعالیٰ کے لیے دو الفاظ «اَلْاَحَدُ» اور «اَلصَّمَدُ» آئے ہیں۔  وہ اپنی جگہ «اَلْاَحَدُ» ہے لیکن باقی پوری کائنات کے لیے «اَلصَّمَدُ» ہے۔  اسی طرح وہ از خود «اَلْحَیُّ» ہے اور باقی پوری کائنات کے لیے «اَلْقَیُّوْمُ » ہے۔

             لاَ تَاْخُذُہ سِنَـۃٌ وَّلاَ نَوْمٌ :   «نہ اس پر اونگھ غالب آتی ہے نہ نیند۔ »

             لَہ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ :   «جو کچھ آسمانوں اور زمین میںہے سب اُسی کا ہے۔ »

            ہر شے کی ملکیت ِتامہ اور ملکیتِ حقیقی اُسی کی ہے۔  

             مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ اِلاَّ بِاِذْنِہ :   «کون ہے وہ جو شفاعت کر سکے اس کے پاس کسی کی مگر اس کی اجازت سے!»

            سورۃ البقرۃ میں قبل ازیں تین مرتبہ قیامت کے روز کسی شفاعت کا دو ٹوک انداز میں انکار (categorical denial) کیا گیا ہے کہ کوئی شفاعت نہیں! یہاں بھی بہت ہی جلالی انداز اختیار کیا گیا ہے:  مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ .  یعنی کس کی یہ حیثیت ہے ‘ کس کا یہ مقام ہے‘ کس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی حیثیت کی بنیاد پر اللہ کے حضور کسی کی شفاعت کر سکے؟  اِلاَّ بِاِذْنِہ :  ہاں‘ جس کے لیے اللہ اجازت دے دے! یہاں پہلی مرتبہ استثناء کے ساتھ شفاعت کا ذکر آیا ہے‘ ورنہ سورۃ البقرۃ کے چھٹے رکوع کی دوسری آیت میں ہم الفاظ پڑھ چکے ہیں:  وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ .  «اور نہ (اُس روز) کسی کی طرف سے کوئی شفاعت قبول کی جائے گی»۔  اسی طرح پندرہویں رکوع کی دوسری آیت میں الفاظ آئے ہیں:  وَّلاَ تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ.  «اور نہ اُس کو کسی کی شفاعت ہی فائدہ دے گی»۔ اور اب اس رکوع کی پہلی آیت میں آ چکا ہے: وََلاَ  شَفَاعَۃٌ .  «اور نہ کوئی شفاعت مفید ہو گی»۔ لیکن یہاں ایک استثناء بیان کیا جا رہا ہے کہ جس کو اللہ کی طرف سے اِذنِ شفاعت حاصل ہو گا وہ اُس کے حق میں شفاعت کر سکے گا جس کے لیے اِذن ہوگا۔ یہ ذرا باریک مسئلہ ہے کہ شفاعت ِحقہ کیا ہے اور شفاعت ِباطلہ کیا ہے۔  دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران اس پر تفصیل کے ساتھ بحث نہیں کی جاسکتی ۔  اس پر میں اپنے تفصیلی درس ریکارڈ کرا چکا ہوں۔    

             یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ :   «وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ »

            عام طور پر دنیا میں ہم کسی کی سفارش کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بھئی میں اس شخص کو بہتر جانتا ہوں‘ اصل میں یہ جیسا کچھ نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے‘ اس کے بارے میں جو معلومات آپ تک پہنچی ہیں وہ مبنی بر حقیقت نہیں ہیں‘ اصل حقائق کچھ اور ہیں‘ وہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔  یہ بات اللہ کے سامنے کون کہہ سکتا ہے؟ جبکہ اللہ تو جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ اُن کے پیچھے ہے۔  

             وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہ اِلاَّ بِمَا شَآءَ :   «اور وہ احاطہ نہیں کر سکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔ »

            باقی ہر ایک کے پاس جو علم ہے وہ اللہ کا دیا ہوا‘ عطائی علم ہے۔  بڑے سے بڑے ولی‘ بڑے سے بڑے رسول اور بڑے سے بڑے فرشتے کا علم بھی محدود ہے۔  فرشتوں کا قول:  لَا عِلْمَ لَنَا اِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا .  ہم چوتھے رکوع میں پڑھ آئے ہیں۔  

             وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ :  «اس کی کرسی تمام آسمانوں اور زمین کو محیط ہے۔ »

            یہاں کرسی کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔  ایک تو یہ کہ اس کا اقتدار‘ اس کی قدرت اور اس کا اختیار (Authority) پوری کائنات کے اوپر حاوی ہے۔  نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار کی علامت کے طور پر واقعتا کوئی مجسم ّشے بھی ہو جس کو ہم کرسی کہہ سکیں۔  اللہ تعالیٰ کے عرش اور کرسی کے بارے میں یہ دونوں باتیں ذہن میں رکھیں۔  یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی کوئی مجسم ّحقیقت ہو جو ہمارے ذہن اور تخیل سے ماورا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے استعارہ مراد ہو کہ اس کا اختیار اور اقتدار آسمانوں اور زمین پر چھایا ہوا ہے۔

             وَلاَ یَــــُٔوْدُہ حِفْظُہُمَا :  «اور اس پر گراں نہیں گزرتی ان دونوں کی حفاظت۔ »

            آسمانوں اور زمین کی حفاظت اور اِن کا تھامنا اُس پر ذرا بھی گراں نہیں اور اس سے اس پر کوئی تهکان طاری نہیں ہوتی۔

             وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ :   «اور وہ بلند و بالا (اور) بڑی عظمت والا ہے۔ »

            یہ آیۃ الکرسی ہے جو تمام آیاتِ قرآنی کی سردار اور توحید الٰہی کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔  اس کے بعد آنے والی دو آیات بھی حکمت اور فلسفہ ٔدین کے اعتبار سے بڑی عظیم آیات ہیں۔ 

UP
X
<>