May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 256

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا ۔ اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اﷲ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ۔ اوراﷲ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے

 آیت 256:     لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ :   «دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ »

            اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔  اسلام میں کسی فرد کو جبراً مسلمان بنانا حرام ہے۔  لیکن اس آیت کا یہ مطلب نکال لینا کہ نظامِ باطل کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی طاقت استعمال نہیں ہو سکتی‘ پرلے َدرجے کی حماقت ہے۔  نظامِ باطل ظلم پر مبنی ہے اور یہ لوگوں کا استحصال کر رہا ہے۔ یہ اللہ اور بندوں کے درمیان حجاب اور آڑ بن گیا ہے۔  لہٰذا نظامِ باطل کو طاقت کے ساتھ ختم کرنا مسلمان کا فرض ہے۔  اگر طاقت موجود نہیں ہے تو طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے‘ لیکن جس مسلمان کا دل نظامِ باطل کو ختم کرنے کی آرزو اور ارادے سے خالی ہے اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔  طاقت اور جبر نظامِ باطل کو ختم کرنے پر َصرف کیا جائے گا‘ کسی فرد کو مجبوراً مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔  یہ ہے اصل میں اس آیت کا مفہوم۔

             قَدْ تَّــبَـیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ :   «ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے۔ » 

            جتنی بھی کجیاں ہیں‘ غلط راستے ہیں‘ شیطانی پگڈنڈیاں ہیں صراطِ مستقیم کو ان سے بالکل مبرہن کر دیا گیا ہے۔

             فَمَنْ یَّـکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ :   «تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے»

            دیکھئے‘ اللہ پر ایمان لانے سے پہلے طاغوت کا انکار ضروری ہے ۔ جیسے کلمہ طیبہ «لا الٰہ الا اللہ» میں پہلے ہر اِلٰہ کی نفی ہے اور پھر اللہ کا اثبات ہے۔  طاغوت طَـغٰی سے ہے‘ یعنی سرکش۔ تو جس نے اپنی حاکمیت کا اعلان کیا وہ طاغوت ہے‘ جس نے غیر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا وہ بھی طاغوت ہے اور غیر اللہ کی حاکمیت کے تحت بننے والے سارے ادارے طاغوت ہیں‘ خواہ وہ کتنے ہی خوشنما ادارے ہوں۔  «عدلیہ» کے نام سے ایک ادارہ اگر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کر رہا ‘کچھ اور لوگوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کر رہا ہے تو وہ طاغوت ہے۔  «مقننہ» کا ادارہ اگر اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق قانون سازی نہیں کر رہا تو وہ بھی طاغوت ہے۔  جو کوئی بھی اللہ کے حدودِ بندگی سے تجاوز کرتا ہے وہ طاغوت ہے۔  دریا جب اپنی حدوں سے باہر نکلتا ہے تو یہ طغیانی ہے : 

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو   یا درمیاں رہے!

            طغٰی اور بغٰی دونوں بڑے قریب کے الفاظ ہیں‘ جن کا مفہوم طغیانی اوربغاوت ہے۔  فرمایا کہ «جو کوئی کفر کرے طاغوت کے ساتھ۔ »

             وَیُؤْمِنْ بِاللّٰہِ :   «اور پھر اللہ پر ایمان لائے»

            طاغوت سے دوستی اور اللہ پر ایمان دونوں چیزیں یکجا نہیں ہو سکتیں۔  اللہ کے دشمنوں سے بھی یارانہ ہو اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا دعویٰ بھی ہو یہی تو منافقت ہے۔  جبکہ اسلام تو « حَنِیْفًا مُّسْلِمًا» کے مصداق کامل یکسوئی کے ساتھ اطاعت شعاری کا مطالبہ کرتا ہے۔

             فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقى :   «تو اُس نے بہت مضبوط حلقہ تھام لیا۔ »

            جس شخص نے یہ کام کر لیا کہ طاغوت کی نفی کی اور اللہ پر ایمان لایا اس نے ایک مضبوط ُکنڈا تھام لیا۔  یوں سمجھئے اگر کوئی شخص سمندری جہاز کے عرشے سے سمندر میں گر جائے‘ اسے تیرنا بھی نہ آتا ہو اور کسی طرح ہاتھ پیر مار کر وہ جہاز کے کسی ُکنڈے کو تھام لے تو اب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی اسی سے وابستہ ہے‘ اب میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ وہ ُکنڈا اگر کمزور ہے تو اس کا سہارا نہیں بن سکے گا اور اس کے وزن سے ہی اکھڑ جائے گا یا ٹوٹ جائے گا‘ لیکن اگر وہ ُکنڈا مضبوط ہے تو وہ اس کی زندگی کا ضامن بن جائے گا۔  یہاں فرمایا کہ طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لانے والے شخص نے بہت مضبوط ُکنڈے پر ہاتھ ڈال دیا ہے۔

             لاَ انْفِصَامَ لَـہَا :   «جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ »

            کبھی علیحدہ ہونے والا نہیں ہے۔  یہ بہت مضبوط سہارا ہے۔  رسول اللہ  کے ایک خطبہ میں یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں: ((وَاَوْثَقُ الْعُری کَلِمَۃُ التَّقْوی))  یعنی تمام کنڈوں میں سب سے مضبوط کنڈا تقویٰ کا کنڈا ہے۔  لہٰذا اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ضرورت ہے ۔

             وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ :   «اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ » 

UP
X
<>